صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
1. بَابُ مَنَاقِبُ الأَنْصَارِ:
باب: انصار رضوان اللہ علیہم کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3778
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: وَأَعْطَى قُرَيْشًا , وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْعَجَبُ إِنَّ سُيُوفَنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَاءِ قُرَيْشٍ وَغَنَائِمُنَا تُرَدُّ عَلَيْهِمْ , فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَدَعَا الْأَنْصَارَ، قَالَ: فَقَالَ:" مَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْكُمْ" وَكَانُوا لَا يَكْذِبُونَ، فَقَالُوا: هُوَ الَّذِي بَلَغَكَ، قَالَ:" أَوَلَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ بِالْغَنَائِمِ إِلَى بُيُوتِهِمْ وَتَرْجِعُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُيُوتِكُمْ لَوْ سَلَكَتْ الْأَنْصَارُ وَادِيًا أَوْ شِعْبًا لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ أَوْ شِعْبَهُمْ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو (غزوہ حنین کی) غنیمت کا سارا مال دے دیا تو بعض نوجوان انصار یوں نے کہا (اللہ کی قسم!) یہ تو عجیب بات ہے ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے اور ہمارا حاصل کیا ہوا مال غنیمت صرف انہیں دیا جا رہا ہے، اس کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے انصار کو بلایا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو خبر مجھے ملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟ انصار لوگ جھوٹ نہیں بولتے تھے انہوں نے عرض کر دیا کہ آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس سے خوش اور راضی نہیں ہو کہ جب سب لوگ غنیمت کا مال لے کر اپنے گھروں کو واپس ہوں اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ گے؟ انصار جس نالے یا گھاٹی میں چلیں گے تو میں بھی اسی نالے یا گھاٹی میں چلوں گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3778  
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے معذرت کی کہ کچھ نوجوان کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں، آپ کا ارشاد سن کر انصار نے بالاتفاق کہا کہ ہم سب اس فضیلت پر خوش ہیں، نالہ یا گھاٹی کا مطلب یہ کہ سفر اور حضر موت اور زندگی میں ہرحال میں تمہارے ساتھ ہوں، کیا یہ شرف انصار کو کافی نہیں ہے؟
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3778   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3778  
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے سمجھ دار لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے بایں الفاظ میں معذرت کی کہ ہمارے سرداروں نے تو یہ بات نہیں کی البتہ کچھ نوجوان اور کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہیں پھر انھوں نے بالا تفاق اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ہم اس اعزاز اور فضیلت پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4331)

میدان یا گھاٹی میں چلنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سفر و حضر اور موت و حیات میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔
کیا یہ اعزاز انصار کے لیے کافی نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔
اس سے ان کی پیروی کرنا مقصود نہیں کیونکہ آپ ہی واجب اطاعت ہیں ہر مرد و عورت پر آپ کی پیروی فرض ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3778