صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
3. بَابُ إِخَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنا۔
حدیث نمبر: 3781
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّهُ قَالَ:" قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ وَكَانَ كَثِيرَ الْمَالِ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ عَلِمَتْ الْأَنْصَارُ أَنِّي مِنْ أَكْثَرِهَا مَالًا سَأَقْسِمُ مَالِي بَيْنِي وَبَيْنَكَ شَطْرَيْنِ , وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَأُطَلِّقُهَا حَتَّى إِذَا حَلَّتْ تَزَوَّجْتَهَا، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ فَلَمْ يَرْجِعْ يَوْمَئِذٍ حَتَّى أَفْضَلَ شَيْئًا مِنْ سَمْنٍ وَأَقِطٍ , فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْيَمْ"، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: مَا سُقْتَ فِيهَا، قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ , أَوْ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ:" أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ بہت دولت مند تھے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: انصار کو معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اس لیے میں اپنا آدھا آدھا مال اپنے اور آپ کے درمیان بانٹ دینا چاہتا ہوں اور میرے گھر میں دو بیویاں ہیں جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں گا اس کی عدت گزر جانے پر آپ اس سے نکاح کر لیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہارے اہل و مال میں برکت عطا فرمائے، (مجھ کو اپنا بازار دکھلا دو) پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک کچھ گھی اور پنیر بطور نفع بچا نہیں لیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جسم پر زردی کا نشان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولے کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مہر کیا دیا ہے؟ بولے ایک گٹھلی کے برابر سونا یا (یہ کہا کہ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اب ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی سے ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3781  
3781. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع ؓ کے درمیان سلسلہ مؤاخات قائم کر دیا۔ حضرت سعد ؓ صاحب ثروت انسان تھے۔ انہوں نے کہا: انصار جانتے ہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ میں اپنا مال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اسے دیکھ لو۔ میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔ جب اس کی عدت ختم ہو جائے تو اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال میں برکت فرمائے! وہ اس دن واپس نہ آئے حتی کہ انہوں نے گھی اور پنیر سے کچھ نفع حاصل کیا۔ پھر وہ تھوڑی مدت ٹھہرے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے جبکہ ان پر زردی کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3781]
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بہت سے مقامات پر نقل فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے جو آپ کے مجتہد مطلق ہونے کی بین دلیل ہے، جو حضرات ایسے جلیل القدر امام کو محض ناقل کہہ کر آ پ کی درایت کا انکار کرتے ہیں ان کو اپنی اس حرکت پر نادم ہونا چاہیے، کہ وہ چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم۔
(آمین)
یہاں حضرت امام کا مقصد اس حدیث کے لانے سے واقعہ مؤاخات کو بیان کرنا ہے کہ آنحضر تﷺ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ربیع کو آپس میں بھائی بھائی بنادیا۔
رضي اللہ عنهم أجمعین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3781   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3781  
3781. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے پاس حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور حضرت سعد بن ربیع ؓ کے درمیان سلسلہ مؤاخات قائم کر دیا۔ حضرت سعد ؓ صاحب ثروت انسان تھے۔ انہوں نے کہا: انصار جانتے ہیں کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ میں اپنا مال اپنے اور تمہارے درمیان دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے جو تمہیں پسند ہو اسے دیکھ لو۔ میں اسے طلاق دے دیتا ہوں۔ جب اس کی عدت ختم ہو جائے تو اس سے نکاح کر لو۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے فرمایا: اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال میں برکت فرمائے! وہ اس دن واپس نہ آئے حتی کہ انہوں نے گھی اور پنیر سے کچھ نفع حاصل کیا۔ پھر وہ تھوڑی مدت ٹھہرے ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے جبکہ ان پر زردی کے نشانات تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3781]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت سعد بن ربیع ؓ خزرجی نقیب ہیں۔
رسول اللہ ﷺنے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے سلسلہ مؤاخات شروع فرمایا:
اس میں انصار کی قربانی، ایثار اور مہاجرین سے ان کی ہمدردی بے مثال ہے۔
تاریخ اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے لیکن مہاجرین نے اس ایثار اور قربانی سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اپنی طرف سے شان بے نیازی اور استغنا کا مظاہرہ کرتے ہوئے منڈی کا راستہ اختیار کر کے محنت مزدوری کرنا پسند کیا۔
مذکورہ احادیث میں انصار کی ہمدردی اور مہاجرین کی شان بے نیازی کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ انصار کا مجموعی طرز عمل یہی تھا جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3781