صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
10. بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ الْعَوْرَةِ:
باب: ستر کا بیان جس کو ڈھانکنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 367
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے ابو سعید خدری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صماء کی طرح کپڑا بدن پر لپیٹ لینے سے منع فرمایا اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی ایک کپڑے میں احتباء کرے اور اس کی شرمگاہ پر علیحدہ کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3559  
´ممنوع لباس کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک «اشتمال صماء» ۱؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں «احتباء» ۲؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3559]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لباس کا مقصد جسم کو اور خاص طور پر پردے کے اعضاء (شرم گاہ)
کو چھپانا ہے۔
اگر چادر یا تہبند اس انداز سے استعمال کیا جئے کہ یہ مقصد حاصل نہ ہو تو یہ ممنوع ہے کیونکہ ایسا لباس حیا کے منافی ہے۔

(2)
کپڑے میں لپٹ جانے کو (اشتمال الصماء)
کہتے ہیں۔
صماء کے معنی ٹھوس چیز کے ہیں یعنی اس طرح چادر اوڑھ کر انسان آسانی سے حرکت کرنے سے محروم ہو جاتا ہے جس طرح ٹھوس پتھر حرکت نہیں کر سکتا۔

(3) (احتباء)
کا مطلب ہے گھٹنے کھڑے کر کے اس طرح بیٹھنا کہ ایک کپڑے کے ساتھ کمر اور گھٹنوں کو باندھ لیا جائے۔
اگر تہبند کو اس طرح باندھ کر بیٹھا جائے تو پردے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اگر تہبند کے علاوہ دوسرے کپڑے کو اس طرح لے کر بیٹھا جائےتو جائز ہے کیونکہ اس سے بے پردگی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
یہ ایک کپڑے میں احتباء نہیں۔

(4)
بعض اوقات گھٹنے کھڑے کر کے بازو ان کے سامنے لا کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پکڑ لیا جاتا ہے۔
اس طرح بیٹھنا جائز ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے بے پردگی نہیں ہوتی لیکن خطبے کے دوران میں اس طرح بیٹھنے سے روکا گیا ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3559   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2417  
´عیدین (عیدالفطر اور عید الاضحی) کے دن روزہ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا: ایک عید الفطر کے دوسرے عید الاضحی کے، اسی طرح دو لباسوں سے منع فرمایا ایک صمّاء ۱؎ دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ۲؎ کرنے سے (جس سے ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے) نیز دو وقتوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: ایک فجر کے بعد، دوسرے عصر کے بعد۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2417]
فوائد ومسائل:
(1) عید کے دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے۔

(2) نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنا ناجائز ہے، لیکن کوئی قضا نماز پڑھنی ہو یا کوئی سببی نماز ہو تو بعض کے نزدیک مباح ہے بشرطیکہ سورج نکلنے یا غروب ہونے والا نہ ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2417   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:367  
367. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے سخت بکل سے منع فرمایا ہے، نیز آپ نے گوٹھ مار کر ایک کپڑے میں بیٹھنے سے بھی روکا جبکہ آدمی کی شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:367]
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلے امام بخاری ؒ ایک عنوان لائے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ نماز اور غیر نماز میں ننگے رہنے کی ممانعت ہے۔
اب اس حدیث سے ننگے رہنے کی حد (تعریف)
بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ (سَوءَتَين)
یعنی پیشاب اور پاخانے کا مقام کھلا ہوا ہو تو یہ ننگا رہنا ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں احتباء کی شکل سے منع فرمایا ہے جبکہ اس کا عضو مستور مکشوف ہو۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اعضائے مخصوصہ مستور ہیں تو اس سے منع نہیں کیا گیا۔
گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک کشف ستر کا مداردبر و قبل کے ننگے یا مستور ہونے پر ہے، اگر یہ اعضاء کھلے ہیں اور باقی پورا جسم ڈھکاہے تو ایسے شخص کو برہنہ کہا جائے گا اور اگر اس کے برعکس یہ اعضاء مستور ہیں تو پھر خواہ سارا جسم کھلا ہو، اسے کشف ستر یا ننگے رہنے کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔

اشتمال صماء کی تشریح فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ انسان چادر اوڑھے پھر ایک طرف سے چادر کے دونوں کنارے اٹھا کر دوسرے کندھے پر ڈال لے، جس سے جسم کا ایک حصہ بالکل کھلا رہے، جبکہ اس کے نیچےکوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔
ایسا کرنا حرام ہے، کیونکہ شریعت نے بلاوجہ کشف ستر کی اجازت نہیں دی۔
اشتمال صماء کی یہ تعریف ایک حدیث میں مرفوعاً مروی ہے۔
(صحیح البخاری، اللباس، حدیث: 5821)
دوسری تعریف اہل لغت نے کی ہے کہ چادر اس طرح بدن پر لپیٹی جائے کہ ہاتھ بندھ جائیں اور ان کے باہر نکالنےکا کوئی راستہ نہ رہے۔
اس طرح چادر لپٹنےسے نقل و حراکت میں بہت دشواری ہوتی ہے۔
اس تفسیر کے مطابق اشتمال صماء ایک ناپسندیدہ عمل ہے، کیونکہ ضرورت کے وقت ہاتھوں کا باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے جس سے کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔
(فتح الباري: 618/1)

احتباء یہ ہے کہ انسان اپنے گھٹنوں کو پیٹ سے ملا کر اپنے سرینوں پر بیٹھ جائے, پھراپنے ہاتھ یا کپڑے سے اس کی بندش کر لے, جبکہ اس کی شرم گاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔
عرب کے ہاں اس طرح بیٹھنا معیوب نہیں تھا۔
احتباء کی یہ تعریف ایک مرفوع حدیث میں مروی ہے۔
(صحیح البخاری، اللباس، حدیث: 5821)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر شرم گاہ ننگی نہ ہوتو منع نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 367