صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
11. بَابُ قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”انصار کے نیک لوگوں کی نیکیوں کو قبول کرو اور ان کے غلط کاروں سے درگزر کرو“۔
حدیث نمبر: 3801
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عنه , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْأَنْصَارُ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَالنَّاسُ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ , فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انصار میرے جسم و جان ہیں، ایک دور آئے گا کہ دوسرے لوگ تو بہت ہو جائیں گے، لیکن انصار کم رہ جائیں گے، اس لیے ان کے نیکو کاروں کی پذیرائی کیا کرنا، اور خطا کاروں سے درگزر کیا کرنا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3801  
3801. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انصار میرے معدے اور زنبیل کے درجے میں ہیں۔ عنقریب لوگ بہت ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، لہذا ان کی خوبیوں کو قبول کرنا اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3801]
حدیث حاشیہ:
یہاں تک حضرت امام نے انصار کے فضائل بیان فرمائے اور آیات واحادیث کی روشنی میں واضح کرکے بتلایا کہ انصار کی محبت جزو ایمان ہے، اسلام پر ان لوگوں کے بہت سے احسانات ہیں، یہ وہ خوش نصیب مسلمان ہیں جن لوگوں نے رسول کریم ﷺ کی مدینہ میں میزبانی کا شرف حاصل کیا اور یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے جوعہد وفا باندھا تھا اسے پورا کردکھایا، پس ان کے لیے دعائے خیر کرنا قیامت تک ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے، جولوگ انصاری کہلاتے ہیں جو عام طور پر کپڑا بننے کا بہترین کاروبار کرتے ہیں، جہاں تک ان کے نسب ناموں کا تعلق ہے، یہ فی الحقیقت انصار نبویہ ہی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، الحمد للہ آج بھی یہ حضرات نصرت اسلام میں بہت آگے آگے نظر آتے ہیں، کثر اللہ سواده آمین۔
اب آگے ان کے بعض افراد خصوصی کے مناقب شروع ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3801   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3801  
3801. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انصار میرے معدے اور زنبیل کے درجے میں ہیں۔ عنقریب لوگ بہت ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، لہذا ان کی خوبیوں کو قبول کرنا اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3801]
حدیث حاشیہ:

انصار نے رسول اللہ ﷺ کو رہنے کے لیے جگہ دی اور اسلام کی مدد کی۔
ان کا یہ وقت گزرچکا ہے کوئی دوسرا اس سعادت میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے اور نہ کوئی ان سے سبقت کر سکتا ہے۔
ان میں سے جو بھی فوت ہو گا اس کی جگہ کبھی پر نہ ہوگی لہٰذا وہ کم ہوتے رہیں گے اور دوسرے لوگ زیادہ ہوتے جائیں گے حتی کہ انصار کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔
ان کے مقابلے میں مہاجرین حکمران ہوں گے انھیں آپ نے وصیت فرمائی کہ انصار سے احسان کرتے رہنا اور انھیں تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا۔
بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ انصار کو کبھی حکومت نہیں ملے گی لیکن یہ موقف واضح نہیں ہے۔

واقعہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ انصار دن بدن کم ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا دعوی کرنے والے بہت ہیں لیکن دعوی کرنے والوں کے پاس انصار ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ المستعان۔
نوٹ:
۔
امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ذریعے سے انصار کے مجموعی کردار کو نمایاں کیا ہے اس سے یہ انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ انصار نے کسی طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجرین بھائیوں کا احترام کیا اور کس قدر محبت خلوص ایثار اور قربانی سے کام لیا۔
نیز مہاجرین بھی اس نوازش و اکرام کی کتنی قدر کرتے تھے چنانچہ انھوں نے بھی انصار کی پیش کش سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتے تھے۔
واقعی رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ سلسلہ مؤاخات سے دور جاہلیت کے جانبدار نہ رویے رنگ و نسل اور وطن کے امتیازات مٹ گئے بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقوی کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھا۔
واقعی یہ بھائی چارہ رسول اللہ ﷺ کی ایک نادر حکمت عملی حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل تھا۔
اس سلسلے میں انصار کا تعاون ایک ایسی مثال ہے جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ ہستیوں کو اپنے ہاں بلند مقام عطا فرمائے اور قیامت کے دن ہمیں ان کی رفاقت نصیب کرے۔
آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3801