صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
33. بَابُ إِسْلاَمُ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوذر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ۔
حدیث نمبر: 3861
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لِأَخِيهِ ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ , وَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي , فَانْطَلَقَ الْأَخُ حَتَّى قَدِمَهُ وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ لَهُ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي مِمَّا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَأَتَى الْمَسْجِدَ , فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ حَتَّى أَدْرَكَهُ بَعْضُ اللَّيْلِ , فَاضْطَجَعَ فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ , فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَصْبَحَ , ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ وَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ وَلَا يَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَمْسَى , فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: أَمَا نَالَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ , فَأَقَامَهُ فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ لَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ , فَعَادَ عَلِيٌّ عَلَى مِثْلِ ذَلِكَ فَأَقَامَ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُحَدِّثُنِي مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ، قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي فَعَلْتُ , فَفَعَلَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتْبَعْنِي , فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ , فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتْبَعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي , فَفَعَلَ فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي"، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ , فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ , ثُمَّ قَامَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ , وَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، قَالَ:" وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ وَأَنَّ طَرِيقَ تِجَارِكُمْ إِلَى الشَّأْمِ , فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ لِمِثْلِهَا , فَضَرَبُوهُ وَثَارُوا إِلَيْهِ فَأَكَبَّ الْعَبَّاسُ عَلَيْهِ".
مجھ سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے، کہا ہم سے مثنیٰ نے، ان سے ابوجمرہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ابوذر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا مکہ جانے کے لیے سواری تیار کر اور اس شخص کے متعلق جو نبی ہونے کا مدعی ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے۔ میرے لیے خبریں حاصل کر کے لا۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا اور پھر میرے پاس آنا۔ ان کے بھائی وہاں سے چلے اور مکہ حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں خود سنیں پھر واپس ہو کر انہوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے، وہ اچھے اخلاق کا لوگوں کو حکم کرتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ اس پر ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا جس مقصد کے لیے میں نے تمہیں بھیجا تھا مجھے اس پر پوری طرح تشفی نہیں ہوئی، آخر انہوں نے خود توشہ باندھا، پانی سے بھرا ہوا ایک پرانا مشکیزہ ساتھ لیا اور مکہ آئے، مسجد الحرام میں حاضری دی اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے نہیں تھے اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، کچھ رات گزر گئی کہ وہ لیٹے ہوئے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اس حالت میں دیکھا اور سمجھ گئے کہ کوئی مسافر ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ میرے گھر پر چل کر آرام کیجئے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے لیکن کسی نے ایک دوسرے کے بارے میں بات نہیں کی۔ جب صبح ہوئی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشکیزہ اور توشہ اٹھایا اور مسجد الحرام میں آ گئے۔ یہ دن بھی یونہی گزر گیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکے۔ شام ہوئی تو سونے کی تیاری کرنے لگے۔ علی رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے گزرے اور سمجھ گئے کہ ابھی اپنے ٹھکانے جانے کا وقت اس شخص پر نہیں آیا، وہ انہیں وہاں سے پھر اپنے ساتھ لے آئے اور آج بھی کسی نے ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کی، تیسرا دن جب ہوا اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ یہی کام کیا اور اپنے ساتھ لے گئے تو ان سے پوچھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہاں آنے کا باعث کیا ہے؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم مجھ سے پختہ وعدہ کر لو کہ میری راہ نمائی کرو گے تو میں تم کو سب کچھ بتا دوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کر لیا تو انہوں نے اپنے خیالات کی خبر دی۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بلاشبہ وہ حق پر ہیں اور اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اچھا صبح کو تم میرے پیچھے پیچھے میرے ساتھ چلنا۔ اگر میں (راستے میں) کوئی ایسی بات دیکھوں گا جس سے مجھے تمہارے بارے میں خطرہ ہو تو میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ (کسی دیوار کے قریب) گویا مجھے پیشاب کرنا ہے، اس وقت تم میرا انتظار نہ کرنا اور جب میں پھر چلنے لگوں تو میرے پیچھے آ جانا تاکہ کوئی سمجھ نہ سکے کہ یہ دونوں ساتھ ہیں اور اس طرح جس گھر میں، میں داخل ہوں تم بھی داخل ہو جانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پیچھے پیچھے چلے تاآنکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ آپ کی باتیں سنیں اور وہیں اسلام لے آئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب اپنی قوم غفار میں واپس جاؤ اور انہیں میرا حال بتاؤ تاآنکہ جب ہمارے غلبہ کا علم تم کو ہو جائے (تو پھر ہمارے پاس آ جانا) ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس وہ مسجد الحرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی سارا مجمع ان پر ٹوٹ پڑا اور انہیں اتنا مارا کہ زمین پر لٹا دیا اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آ گئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے آپ کو ڈال کر قریش سے کہا افسوس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلہ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمہارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے اس طرح سے ان سے ان کو بچایا۔ پھر ابوذر رضی اللہ عنہ دوسرے دن مسجد الحرام میں آئے اور اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ قوم پھر بری طرح ان پر ٹوٹ پڑی اور مارنے لگی اس دن بھی عباس رضی اللہ عنہ ان پر اوندھے پڑ گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3861  
3861. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ابوذر ؓ کو نبی ﷺ کی بعثت کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی (مکہ) جانے کے لیے سواری تیار کرو اور اس آدمی کے متعلق مجھے معلومات فراہم کرو جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا، پھر میرے پاس آنا، چنانچہ ان کا بھائی وہاں سے روانہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں سن کر واپس آیا اور حضرت ابوذر ؓ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے وہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا کہ میرا جو ارادہ تھا تو نے مجھے اس کے متعلق مطمئن نہیں کیا۔ آخر انہوں نے خود رخت سفر باندھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ زاد سفر اور پانی کا مشکیزہ لیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مسجد حرام میں حاضری دی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3861]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوذر غفاری ؓ بلند مرتبہ تارک الدنیا مہاجرین کرام میں سے ہیں۔
ان کا نام جندب تھا، مکہ شریف میں شروع اسلام لانے والوں میں ان کا پانچواں نمبر ہے۔
پھر یہ اپنی قوم میں چلے گئے تھے اور مدت تک وہاں رہے، غزوئہ خندق کے موقعہ پر خدمت نبوی میں مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے اور پھر مقام زبدہ میں قیام کیا اور32ھ میں خلافت عثمانی میں ان کا زبدہ ہی میں انتقال ہوا, یہ حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی عبادت کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3861   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3861  
3861. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب ابوذر ؓ کو نبی ﷺ کی بعثت کے متعلق علم ہوا تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اس وادی (مکہ) جانے کے لیے سواری تیار کرو اور اس آدمی کے متعلق مجھے معلومات فراہم کرو جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں۔ اس کی باتوں کو خود غور سے سننا، پھر میرے پاس آنا، چنانچہ ان کا بھائی وہاں سے روانہ ہوا اور رسول اللہ ﷺ کی باتیں سن کر واپس آیا اور حضرت ابوذر ؓ کو بتایا کہ میں نے انہیں خود دیکھا ہے وہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور میں نے ان سے جو کلام سنا وہ شعر نہیں ہے۔ حضرت ابوذر ؓ نے فرمایا کہ میرا جو ارادہ تھا تو نے مجھے اس کے متعلق مطمئن نہیں کیا۔ آخر انہوں نے خود رخت سفر باندھا۔ انہوں نے اپنے ساتھ زاد سفر اور پانی کا مشکیزہ لیا اور مکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مسجد حرام میں حاضری دی اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3861]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوذر ؓ کا نام جندب ہے۔
اسلام لانے میں پہل کی اور تکلیفیں اٹھائیں، پھر اپنی قوم میں چلے گئے اور مدت تک وہیں رہے۔
غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
آپ بلند مرتبہ، تارک دنیا اور مہاجرین کرام میں سے ہیں۔
زندگی کے آخری ایام مقام ربذہ میں گزارے۔
حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں فوت ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

جب معلومات لینے کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو آپ اپنا مقصد کسی سے ظاہر نہ کرتے کیونکہ اس طرح مشرکین تکلیف پہنچانے میں مزید دلیر ہوجاتے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا دین ظاہر ہو، اس لیے اگر کوئی شخص مشرکین سے رسول اللہ ﷺ کے متعلق پوچھتا تو وہ اسے بتاتے نہیں تھے۔
وہ لوگوں کو آپ کے پاس جانے سے روکتے تھے یا اس سے دھوکا کرتے تاکہ واپس چلاجائے۔

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوذر ؓ رات کے وقت حضرت ابوبکر ؓ صدیق ؓ سے طواف میں ملے۔
ان روایات میں کوئی تضاد اور مخالفت نہیں۔
ممکن ہےکہ حضرت ابوذر ؓ پہلے حضرت علی ؓ سے ملے ہوں، پھر رات کے وقت دوران طواف میں حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات ہوئی ہو۔
(فتح الباري: 220/7۔
)

واللہ اعلم۔
اس حدیث کے مزید فوائد وحدیث: 3522 میں ملاحظہ کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3861