صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
14. بَابُ إِذَا صَلَّى فِي ثَوْبٍ لَهُ أَعْلاَمٌ وَنَظَرَ إِلَى عَلَمِهَا:
باب: حاشیہ (بیل) لگے ہوئے کپڑے میں نماز پڑھنا اور اس کے نقش و نگار کو دیکھنا۔
حدیث نمبر: 373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلَامٌ، فَنَظَرَ إِلَى أَعْلَامِهَا نَظْرَةً، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ:" اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَائْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلَاتِي"، وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ: عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عَلَمِهَا وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ فَأَخَافُ أَنْ تَفْتِنَنِي.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم (عامر بن حذیفہ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کر دیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے غافل نہ کر دے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 915  
´نماز میں (ادھر ادھر) دیکھنے کا بیان۔`
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم کی کر دی چادر لے لی، تو آپ سے کہا گیا: اللہ کے رسول! وہ (باریک نقش و نگار والی) چادر اس (کر دی چادر) سے اچھی تھی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 915]
915۔ اردو حاشیہ:
➊ ابوجہم رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے۔ ان کا نام عبید یا عامر بن حذیفہ قرشی عدوی آیا ہے۔ ان کی طرف منقش چادر اس لئے بھیجی تھی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ چادر ہدیہ کی تھی۔ [عون المعبود]
➋ لباس، مصلیٰ، فرش یا سامنے کی دیوار وغیرہ اگر ایسی ہو کہ اس کے نقوش سے نماز کے دوران میں الجھن ہوتی ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
➌ نماز کے دوران میں آنکھیں بند کر لینا کسی طرح صحیح نہیں۔ نظر حتی الامکان سجدے کی جگہ پر رہنی چاہیے۔ مگر تشہد میں بیٹھتے ہوئے انگشت شہادت پر ہو تو مستحب ہے۔ [سنن نسائي۔ حديث۔ 1161]
تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الاوطار باب نظر المصلي اليٰ موضع سحوده۔۔۔ ص 211/2]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 915   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 772  
´نقش و نگار والی چادر میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان بیل بوٹوں نے مجھے مشغول کر دیا، اسے ابوجہم کے پاس لے جاؤ، اور اس کے عوض کوئی سادی چادر لے آؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 772]
772 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ منقش چادر ابوجہم رضی اللہ عنہ ہی نے بطور تحفہ بھیجی تھی چونکہ تحفے کی واپسی سے ان کی دل شکنی کا خطرہ تھا، لہٰذا تحفے کا تبادلہ کر لیا۔
➋ انبجانی بغیر دھاریوں کے سادہ چادر ہوتی تھی۔ انبجان علاقہ تھا جہاں وہ چادریں بنتی تھیں۔
➌ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مقدس اس قدر صاف تھا کہ اس میں ہلکی سی لہر بھی آپ کو محسوس ہوتی تھی۔ معمولی سا خیال بھی آپ کو بہت زیادہ محسوس ہوا ہو گا ورنہ آپ جیسا خشوع و خضوع کسے نصب ہو گا؟
➍ مصنف رحمہ اللہ نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ منقش کپڑے میں نماز ہو سکتی ہے۔ آپ نے نماز دہرائی نہیں۔ ویسے بھی دھاری دار کپڑا پہننا منع نہیں۔ پہنا ہوا یا جائے نماز کا کپڑا دھاری دار ہو تو نماز میں کوئی خرابی لازم نہ آئے گی لیکن اس سے پرہیز بہتر ہے۔ ہمارے دل اس قدر صاف نہیں ہیں کہ اتنی معمولی سی دھاریاں ہماری نماز کے خشوع و خضوع میں فرق ڈالیں کیونکہ ہمارا خشوع و خضوع پہلے ہی بہت کم ہوتا ہے، البتہ اگر کسی شخص کا لباس یا مصلے کی دھاریوں، رنگوں وغیرہ سے، خشوع و خضوع کم ہوتا ہو تو وہ ایسے کپڑے سے پرہیز کرے۔ آج کل مصلے پر مسجد، مینار اور گنبد وغیرہ کی تصاویر ہوتی ہیں جو نماز کی مناسبت سے ہیں، لہٰذا ان میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس حدیث کی رو سے یہ بھی ناپسندیدہ ہیں، ان سے بھی بچنے کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ ایسا کپڑایا مصلیٰ بالکل ناجائز ہے جس میں کسی جاندار کی یا کسی ایسی چیز کی تصویر ہو جس کی پوجا ہوتی ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 772   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3550  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش و نگار تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان بیل بوٹوں نے غافل کر دیا، اسے ابوجہم کو کے پاس لے کر جاؤ اور مجھے ان کی انبجانی چادر لا کر دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3550]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مرد کے لیے نقش و نگار والا کپڑا پہننا جائز ہے بشرطیکہ وہ اس قسم کا نہ ہو جسے زنانہ کپڑا قرار دیا جاتا ہو۔

(2)
نمازی کے سامنے ایسے نقش و نگار نہیں ہونے چاہیں جو نمازی کی توجہ اپنی طرف مبذول کریں، اس لئے رنگ برنگے مصلوں پر نماز پڑھنا مناسب نہیں۔

(3)
مسجد کی دیواروں کو طرح طرح سے مزین کرنا بھی درست نہیں، اس سے بھی نمازی کی توجہ نمار سے ہٹ جاتی ہے۔

(4)
مرد کے لئے سادہ لباس پہننا بہتر ہے۔

(5)
کسی کا تحفہ واپس کرنا پڑے تو عذر واضح کر دینا چاہیے۔

(6)
رسول اللہ ﷺنے صحابی سے دوسری چادر اس لئے طلب فرمالی کہ ہدیہ واپس ہونے کی وجہ سے ان کی دل شکنی نہ ہو۔

(7)
مقتدیوں اور ساتھیوں کے جذبات مجروح کرنے سے حتی الوسع اجتنا ب کرنا چاہیے۔

(8) (انجانیہ)
ایک قسم کی سادہ، نقش و نگار کے بغیر چادر ہوتی تھی جو بہت معمولی درجے کے موٹے کپڑے کی ہوتی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3550   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:373  
373. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دفعہ منقش چادر میں نماز پڑھی۔ آپ کی ایک نظر اس کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: میری اس چادر کو ابوجہم کے پاس واپس لے جاؤ اور ابوجہم سے اس کی انبجانی (سادہ) چادر لے آو کیونکہ اس منقش چادر نے مجھے ابھی اپنی نماز میں دوسری طرف متوجہ کر دیا تھا۔ ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ سے اور وہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے اس چادر کے نقش و نگار کی طرف بحالت نماز نظر کی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھے فتنے میں نہ ڈال دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:373]
حدیث حاشیہ:

منقش کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کے متعلق عنوان میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، لیکن جو روایت پیش کی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ہو جائے گی، کیونکہ نماز کے لیے تو کپڑے کا ساتر اورطاہر ہونا ضروری ہے جو اس صورت میں بھی حاصل ہے، لیکن اگر نمازی یہ خیال کرے کہ ایسا کپڑا اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
چنانچہ حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی ایک نظر کپڑے کے نقش و نگار پر پڑی تو آپ نے نماز کو تو جاری رکھا نہ اسے ختم کیا اور نہ پڑھنے کے بعد اس کا اعادہ فرمایا۔
امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہو گیا کہ اس قسم کے کپڑے میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال میں فتنے کا سامان مہیا ہوتا ہو تو سادہ کپڑا استعمال کرنا اولیٰ ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو اشیاء بھی دوران نماز میں نمازی کے خشوع میں خلل انداز ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
منقش جائے نماز کا حکم بھی یہی ہے۔

ابن شہاب عن عروہ والی پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوئے۔
دوسری ہشام عن عروہ والی روایت میں ہے کہ آپ کو فتنے میں پڑنے کا اندیشہ لاحق ہوا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں باتوں کو متضاد خیال کر کے پہلی روایت کی بایں طور تاویل کی ہے کہ قریب تھا کہ آپ نقش و نگار کی طرف متوجہ ہو جاتے، یعنی پہلی روایت کا مطلب دوسری روایت کے مطابق کردیا ہے کہ آپ کو غفلت بھی پیش نہیں آئی تھی۔
(فتح الباري: 626/1)
لیکن اس حدیث سے بعض شارحین نے ایک مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز میں کوئی غیر متعلق خیال آنے پر نماز خراب نہیں ہوتی۔
اگر رسول اللہ ﷺ کو کسی درجے میں بھی غفلت پیش نہیں آئی تھی، بلکہ صرف اس کا خوف وخطرہ ہی تھا تو استدلال مذکور کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟اس لیے بہتر توجیہ یہ ہے کہ غفلت کا تحقق ووجود تو تسلیم کر لیا جائے، لیکن یہ غفلت فتنے میں پڑجانے کے درجے سے بہت کم تھی جس میں غیر متعلق خیال و فکر میں استغراق کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔
یہ صورت رسول اللہ ﷺ کو پیش نہیں آئی بلکہ اس کا صرف اندیشہ پیدا ہوا ممکن ہے نقش و نگار کی طرف توجہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت گری کا فکرو خیال پیدا ہوا ہو جسے آپ نے اپنے مرتبہ عالیہ کی نسبت سے ایک درجے کا نقص خیال فرمایا ہو۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ اللہ کی طرف توجہ سے ہٹ گئے ہوں، کیونکہ بعض لوگ دو کاموں میں بیک وقت مشغول ہوتے ہیں اور کسی ایک امرکی ادائیگی میں نقص واقع نہیں ہوتا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ معمولی درجے کا فکری اشتعال مانع صلاۃ نہیں اور اس بات پر سب کا اتفاق ہے۔
نیز اگر نماز میں نماز سے باہر کی کسی چیز کا خیال آجائے تو نماز درست ہے، بعض سلف سے جو منقول ہے کہ اس سے نماز کی صحت پر اثر پڑے گا وہ معتبرنہیں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع اور دل کا پوری طرح متوجہ ہونا مطلوب ہے لہٰذا نمازی کو چاہیے کہ حتی الامکان اپنے قصد وارادے سے دوران نماز میں دوسرے خیالات نہ آنے دے اور اگر خود بخود آجائیں تو ان کی طرف توجہ نہ دے۔
(عمدة القاري: 314/3)

رسول اللہ ﷺ نے اس منقش چادر کو فتنے کا سامان قراردیا تو آپ نے اسے ابو جہم ؓ کو کیوں واپس کیا؟ جب وہ آپ کے لیے باعث فتنہ تھی تو حضرت ابو جہم ؓ کے لیے تو وہ بدرجہ اولیٰ باعث فتنہ ہو سکتی تھی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے اس کی دلجوئی کے لیے اس چادر کو واپس کیا تاکہ وہ اسے کسی اور مصرف میں لا سکے اس لیے واپس نہیں کیا کہ وہ اس میں نماز ادا کرے۔
بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابو جہم ؓ چونکہ نابینا تھے اس لیے منقش کپڑا ان کے حق میں سامان فتنہ نہ تھا۔
نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز کا اثر رسول اللہ ﷺ کے قلب مبارک پر ہو اس کا اثر عوام کے دل پر بھی ہو، کیونکہ آپ کا قلب مبارک صاف آئینے کی طرح تھا۔
اس لیے وہ کمال صفائی اور غایت لطافت کی بنا پر ظاہری نقوش کا اثر جلدی قبول کر لیتا تھا، اس کے برعکس اگر آئینے پر صفائی نہ ہو تو وہ معمولی نقوش کو قبول ہی نہیں کرتا۔
اس لیے آپ نے وہ منقش چادر ابو جہم کو واپس کردی کہ اگر وہ استعمال کریں گے تو کچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔

رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر ابو جہم کو اس لیے واپس کی تھی کہ اسی نے آپ کو بطور ہدیہ بھیجی تھی جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو ایک منقش چادر بطور تحفہ بھیجی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عطیہ بھیجنے والے کو اگر اس کا عطیہ واپس کردیا جائے اور وہ خود اسے واپس لینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اسے واپس لینے میں کوئی حرج نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی دلجوئی کے لیے اس منقش چادر کی جگہ سادہ چادر لینے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنے ہدیے کی واپسی پر دل برداشتہ نہ ہو۔
(شرح ابن بطال: 37/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 373