صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
17. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الأَحْمَرِ:
باب: سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 376
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الْوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلَالًا أَخَذَ عَنَزَةً فَرَكَزَهَا، وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مُشَمِّرًا، صَلَّى إِلَى الْعَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ مِنْ بَيْنِ يَدَيِ الْعَنَزَةِ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر ابن ابی زائدہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، انہوں نے اپنے والد ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انہوں نے گاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ڈیرے میں سے) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 634  
´ کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ ادھر ادھر (دائیں بائیں) پھرائے`
«. . . عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ،" أَنَّهُ رَأَى بِلَالًا يُؤَذِّنُ، فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَهُنَا وَهَهُنَا بِالْأَذَانِ . . .»
. . . عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 634]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اذان کے وقت اِدھر اُدھر منہ کرنے کو پیش فرمایا ہے یہاں مناسبت یہ معلوم ہوتی ہے کہ نماز کے لئے وضو شرط ہے اور بندہ نماز میں التفات اِدھر اُدھر اپنے منہ نہیں کر سکتا اس لئے کہ نماز میں قبلہ رو ہونا شرط ہے، لہٰذا جب اذان میں اِدھر اُدھر بندہ اپنا منہ کر سکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے وضو شرط نہیں ہے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نقل کیا کہ آپ علیہ السلام ہر حالت میں ذکر فرماتے تھے تو معلوم ہوا کہ ہر حالت میں ذکر کرنے کے لئے وضو شرط نہیں اور اذان دینا بھی ایک ذکر ہے اور اس پر بھی وضو شرط نہیں ہے۔
◈ ابوجحیفہ سے جو اثر منقول ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان میں اِدھر اُدھر منہ کیا کرتے تھے یہ بھی اسی مسئلہ پر دال ہے۔ «والله اعلم»
◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «غرضه اثبات ان الأذان غير ملحق بالصلاة فى الاحكام ولا يشترط فيه الاستقبال، وبهذا يتحقق المناسبة بين الترجمة والاثار الواردة فيه» [شرح تراجم ابواب البخاري، ص202]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ اذان نماز کے ساتھ ملحق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں (بیت اللہ کی طرف منہ کرنا) استقبال کی کوئی شرط ہے۔
لہٰذا یہی مناسبت ہے ترجمۃ الباب کی ان آثار کے ساتھ جو وارد ہوئے ہیں۔
◈ امام عبدالله بن سالم البصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لأن الأذان من جملة الاذكار فلا يشترط فيه ما يشترط فى الصلاة من الطهارة ولا من استقبال القبلة كما لا يستحب فيه الخشوع الذى ينافيه الالتفات» [ضياء الباري فى مالك ابواب البخاري، ج7، ص74]
اذان دراصل اذکار میں سے ہے اس (کی ادائیگی کے لئے) وہ شرائط نہیں ہیں جو نماز کی ہیں۔ جیسے کہ طہارت کا ہونا، قبلہ رو ہونا اور اس میں خشوع کا ہونا بھی مستحب نہیں ہے جو التفات کے منافی ہو (یعنی اذان میں التفات کر سکتے ہیں)۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں یہ مقصود ہے کہ مؤذن دائیں اور بائیں طرف التفات کر سکتا ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ میں (اذان دیتے ہوئے) اپنے منہ کو ادھر ادھر یعنی دائیں اور بائیں پھیرتا «حي على الصلاة» اور «حي على الفلاح» پر۔
ان تصریحات کا حاصل یہ ہے کہ اذان میں جب التفات ہو سکتا ہے تو اس کا حکم نماز کا نہیں ہے کیونکہ نماز میں خشوع اور خضوع کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ بس جب اذان کا حکم نماز جیسا نہیں تو اس کے لئے طہارت بھی شرط نہیں۔ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 182   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:376  
376. حضرت ابوجحیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور میں نے یہ بھی بچشم خود ملاحظہ کیا کہ جب حضرت بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کے وضو سے بچا ہوا پانی لائے تو لوگ اسے دست بدست لینے لگے۔ جسے اس میں سے کچھ مل جاتا، وہ اسے اپنے چہرے پر مل لیتا اور جسے کچھ نہ ملتا وہ اپنے پاس والے آدمی کے ہاتھ سے تری لے لیتا۔ پھر میں نے حضرت بلال ؓ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک نیزہ اٹھا کر زمین میں گاڑ دیا ور نبی ﷺ ایک سرخ جوڑا زیب تن کیے، دامن اٹھائے برآمدہوئے اور چھوٹے نیزے کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت پڑھائیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ اور جانور نیزے کے آگے سے گزر رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:376]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے سرخ کپڑے پہننے کا جواز ثابت ہوتا ہے، مگر احناف اس کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سرخ لباس مکروہ ہے اور انھوں نے حدیث مذکور کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ حلہ (جوڑا)
ایسی چادروں پر مشتمل تھا۔
جس میں سرخ دھاریاں تھیں۔
(فتح الباري: 629/1)
لیکن احناف کے ہاں اس میں تفصیل ہے جسے ملا علی قاری ؒ نے بایں طور بیان کیا ہے، اگر وہ رنگ عصفر یا زعفران کا ہو تو مردوں کے لیے اس کا استعمال مکروہ ہے اور اگر ان دو چیزوں کے علاوہ سرخ رنگ ہو تو دیکھا جائے کہ سرخ رنگ شوخ ہے یا ہلکا اگر شوخ ہو تو اس کا استعمال مکروہ تنزیہی یا خلاف تقوی ہے اور اگر رنگ پھیکا ہو تو اس کا استعمال مباح ہے، پھر اگر سرخ کپڑا دھاری دار ہو، یعنی زمین سفید اور اس پر سرخ دھاریاں ہو تو اس کے استعمال میں استحباب کا درجہ ہے۔
ترقی کر کے اسے سنت بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے پسند فرماتے تھے۔
امام بخاری ؒ نے لکھا ہے کہ آپ کا یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا نہ تھا بلکہ اس میں سرخ دھاریاں تھیں اس سے مردوں کو سرخ لباس پہنچنے کا جواز ملتا ہے، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نیز شہرت و ریا کاری کی ہوس نہ ہو۔
(عون الباري: 508/1)
حافظ ابن حجر ؒ نے محدث ابن التین ؒ کے حوالے سے لکھا ہے:
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ سرخ جوڑا جنگی حالات کے پیش نظر زیب تن فرمایا تھا۔
یہ خیال محل نظر ہے، کیونکہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے بعد کا ہے اور اس وقت کسی قسم کے جنگی حالات نہ تھے۔
(فتح الباري: 629/1)
واضح رہے کہ سرخ رنگ کے متعلق یہ تفصیل کپڑوں سے متعلق ہے چمڑے کے متعلق کسی رنگ میں کراہت نہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے ایک آدمی گزرا جس نے دوسرخ کپڑے پہن رکھے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔
(سنن أبي داود، للباس، حدیث: 4069)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس کو اچھا خیال نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس کے سلام کا جواب دینا بھی گوارانہیں فرمایا۔
جبکہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث میں ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے سرخ لباس زیب تن فرمایا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کے متعدد جوابات دیے ہیں، اس کی سند ضعیف ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔
(فتح الباري: 629/1)
اگرچہ امام ترمذی ؒ نے اسے حسن قراردیا ہے۔
(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2807)
اگر اس کی سند کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اقوی حدیث اس کے معارض ہے اور اسے ترجیح ہوگی۔
پھر یہ خاص واقعہ ہے جس میں کسی اور چیز کا احتمال بھی ہو سکتا ہے، ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی اور وجہ سے سلام کا جواب نہ دیا ہو۔
امام بیہقی ؒ نے اس کا بایں طور پر جواب دیا ہے کہ اسے تیار کرنے کے بعد رنگا گیا تھا، اگر اس کے دھاگے کو رنگ کر کپڑا تیار کیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔
امام ترمذیؒ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس کا لباس عصفر بوٹی سے رنگا ہوا تھا، اگر اس کے بغیر کسی اور چیز سے سرخ رنگ دیا جائے تو ممانعت نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے (باب ماجاء في کراھیة لبس المعصفر للرجال)
عصفر سے رنگے ہوئے کپڑوں کی کراہت۔
بہر حال سرخ رنگ کے کپڑے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی ممانعت نہیں، بشرطیکہ عورتوں اور کفار سے مشابہت نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 376