صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3901
حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ هِشَامٌ: فَأَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّ سَعْدًا، قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهِدَهُمْ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ , اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ"،وَقَالَ أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ:" مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا نَبِيَّكَ وَأَخْرَجُوهُ مِنْ قُرَيْشٍ".
مجھ سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہشام نے بیان کیا کہ انہیں ان کے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ اس سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز پسندیدہ نہیں کہ تیرے راستے میں، میں اس قوم سے جہاد کروں جس نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور انہیں (ان کے وطن مکہ سے) نکالا۔ اے اللہ! لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان لڑائی کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔ اور ابان بن یزید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ (یہ الفاظ سعد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے) «من قوم كذبوا نبيك وأخرجوه من قريش‏.» یعنی جنہوں نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلایا، باہر نکال دیا۔ اس سے قریش کے کافر مراد ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3901  
3901. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے (اپنی بیماری کے وقت) دعا مانگی: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات یہ تھی میں اس قوم سے تیری رضا کے لیے جہاد کرتا جنہوں نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور اسے اپنے وطن سے نکالا۔ اے اللہ! اب میرا گمان ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جہاد کو بند کر دیا ہے۔ (راوی حدیث) ابان بن یزید نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے یوں روایت کیا ہے: وہ قوم جس نے تیرے نبی کو جھٹلایا اور انہیں اپنے وطن سے نکالا، اس سے قریش مراد ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3901]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد کو یہ گمان ہوا کہ جنگ احزاب میں کفار قریش کی پوری طاقت لگ چکی ہے اور آخر میں بھاگ نکلے تو اب قریش میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔
شاید اب ہم میں اور ان میں جنگ نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3901  
3901. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے (اپنی بیماری کے وقت) دعا مانگی: اے اللہ! تو خوب جانتا ہے کہ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ بات یہ تھی میں اس قوم سے تیری رضا کے لیے جہاد کرتا جنہوں نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا اور اسے اپنے وطن سے نکالا۔ اے اللہ! اب میرا گمان ہے کہ تو نے ہمارے اور ان کے درمیان جہاد کو بند کر دیا ہے۔ (راوی حدیث) ابان بن یزید نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے یوں روایت کیا ہے: وہ قوم جس نے تیرے نبی کو جھٹلایا اور انہیں اپنے وطن سے نکالا، اس سے قریش مراد ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3901]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن معاذ ؓ کو یہ گمان ہوا کہ جنگ احزاب میں کفار قریش کی پوری طاقت صرف ہوچکی ہے، آخر کار وہ بھاگ نکلے ہیں تو شاید اب قریش میں لڑنے کی طاقت باقی نہیں رہی اور اب ہم میں اور ان میں جنگ نہ ہو۔
حضرت ابان کی روایت سے معلوم ہوتا ہے اس سے کفار قریش مراد ہیں، بنوقریظہ نہیں جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ حضرت سعد ؓ نے یوں دعاکی:
اے اللہ! اگرقریش کی لڑائیوں میں کچھ باقی رہ گیا ہے تو مجھے زندہ رہنے دے۔
اگر ہمارے اور ان کےدرمیان تو نے جنگ کو ختم کردیا ہے تو مجھےاس بیماری کی حالت میں شہادت کی موت دے دے، چنانچہ ان کاوہ زخم بہنے لگا جورگ اکحل پر تیرلگنے کی وجہ سے ہوا تھا، یہاں تک ان کی موت واقع ہوگئی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4122)
اس سے مراد قریش ہیں کیونکہ انھوں نے ہی رسول اللہ ﷺ کومکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
اس سے مراد بنوقریظہ نہیں ہیں جیسا کہ بعض شارحین نے سمجھاہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 286/7۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3901