صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3914
وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَبَّابٌ، قَالَ:" هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبْتَغِي وَجْهَ اللَّهِ , وَوَجَبَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ , فَمِنَّا مَنْ مَضَى لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ شَيْئًا نُكَفِّنُهُ فِيهِ إِلَّا نَمِرَةً , كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ , فَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ , فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّيَ رَأْسَهُ بِهَا وَنَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنْ إِذْخِرٍ , وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ان سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، کہا کہ ہم سے خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی تو ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر بھی ضرور دے گا۔ پس ہم میں سے بعض تو پہلے ہی اس دنیا سے اٹھ گئے۔ اور یہاں اپنا کوئی بدلہ انہوں نے نہیں پایا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں سے ہیں۔ احد کی لڑائی میں انہوں نے شہادت پائی۔ اور ان کے کفن کے لیے ہمارے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ اور وہ بھی ایسا کہ اگر اس سے ہم ان کا سر چھپاتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے۔ اور اگر پاؤں چھپاتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کا سر چھپا دیا جائے اور پاؤں کو اذخر گھاس سے چھپا دیا جائے۔ اور ہم میں بعض وہ ہیں جنہوں نے اپنے عمل کا پھل اس دنیا میں پختہ کر لیا۔ اور اب وہ اس کو خوب چن رہے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3853  
´مصعب بن عمیر رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی ۱؎، ہم اللہ کی رضا کے خواہاں تھے تو ہمارا اجر اللہ پر ثابت ہو گیا ۲؎ چنانچہ ہم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ انہوں نے اپنے اجر میں سے (دنیا میں) کچھ بھی نہیں کھایا ۳؎ اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کے امید کا درخت بار آور ہوا اور اس کے پھل وہ چن رہے ہیں، اور مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ایسے وقت میں انتقال کیا کہ انہوں نے کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے ایک ایسے کپڑے کے جس سے جب ان کا سر ڈھانپا جاتا تو دونوں پیر کھل جاتے اور جب دونوں پیر ڈھانپے جاتے تو سر کھل جاتا، یہ دیکھ ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3853]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی آپﷺ کے حکم سے ہجرت کی،
ورنہ ہجرت میں آپﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے،
یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے آپﷺ کے آگے پیچھے ہجرت کی اور بالآخر سب مدینہ پہنچے۔

2؎:
یعنی اللہ کے اپنے اوپر آپ خود سے واجب کرنے پر،
ورنہ آپ پر کون کوئی چیز واجب کر سکتا ہے،
یا آپ نے ایسا اس لیے کہا کہ اللہ نے اس کا خود ہی وعدہ فرمایا ہے،
اوراللہ کا وعدہ سچا پکا ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی فتوحات سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا تو اموال غنیمت سے استفادہ کرنے کا ان کوموقع نہیں ملا،
ورنہ صحابہ نے خاص مال غنیمت کی نیت سے ہجرت نہیں کی تھی۔

4؎:
چونکہ مصعب کا انتقال فراخی ہونے سے پہلے ہوا تھا اس لیے سرکاری بیت المال میں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ ان کے کفن دفن کا انتظام کیا جاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3853   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2876  
´کفن کا کپڑا بھی مردے کے مال میں داخل ہے اس کی دلیل کا بیان۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن قتل کر دیے گئے، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پاؤں کھل جاتے اور جب دونوں پاؤں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر اذخر ڈال دو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2876]
فوائد ومسائل:

میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل سے پیشتر کفن دفن کا اہمتام لازمی ہے۔
اگر وار ث یا کوئی دوسرا شخص ا س کا اہتمام نہ کرے تو یہ خرچ خود اس کے مال سے لیا جائےگا۔
اگر مرنے والے کا کل مال اس کے کفن دفن پر خرچ ہوجائے۔
تو دیگر وارث وغیرہ محروم ہوں گے۔


ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی معاشی حالت بہت تنگ تھی۔


حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اپنی ہی چادر میں کفن دیا گیا۔
مذید کا اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا۔


حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کل مال یہی تھا۔
اس لئے اسی میں سے ان کا کفن تیار کیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2876   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3914  
3914. (دوسری سند کے ساتھ یہی روایت ہے) حضرت خباب بن ارت ؓ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تو ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کا اجر بھی ضرور دے گا، چنانچہ ہم میں سے کچھ حضرات اللہ کو پیارے ہو گئے اور دنیا میں انہوں نے اپنا کوئی بدلہ نہیں پایا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں جو اُحد کی جنگ میں شہید ہو گئے۔ ہمیں ان کے سامان میں کوئی ایسی چیز نہ ملی جس میں ہم انہیں کفن دیتے۔ ایک کمبل کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا، وہ بھی ایسا کہ اگر ہم اس سے ان کا سر چھپاتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپاتے تو سر کھلا رہتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ہم حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا سر چھپا دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے بعض ایسے ہیں جن (کے اجر) کا پھل پک چکا ہے، جسے وہ چن چن کر کھا [صحيح بخاري، حديث نمبر:3914]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کی اجازت سے ہجرت کی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کرکے آنے والے صرف حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ ؓ تھے۔

حدیث نمبر۔
: 3914۔
کے فوائد، حدیث: 3897 کے تحت ملاحظہ کریں۔

واضح رہے کہ حضرت خباب بن ارت ؓ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی کہ جب وہ بیمار ہوئے اور ابووائل راوی حدیث ان کی بیمار پرسی کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6448)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3914