صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3915
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ , قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: هَلْ تَدْرِي مَا؟ قَالَ أَبِي: لِأَبِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنَّ أَبِي قَالَ لِأَبِيكَ: يَا أَبَا مُوسَى، هَلْ يَسُرُّكَ إِسْلَامُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهِجْرَتُنَا مَعَهُ , وَجِهَادُنَا مَعَهُ , وَعَمَلُنَا كُلُّهُ مَعَهُ بَرَدَ لَنَا , وَأَنَّ كُلَّ عَمَلٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدَهُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ؟ فَقَالَ أَبِي: لَا وَاللَّهِ , قَدْ جَاهَدْنَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَصَلَّيْنَا وَصُمْنَا , وَعَمِلْنَا خَيْرًا كَثِيرًا , وَأَسْلَمَ عَلَى أَيْدِينَا بَشَرٌ كَثِيرٌ , وَإِنَّا لَنَرْجُو ذَلِكَ، فَقَالَ أَبِي: لَكِنِّي أَنَا وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ , لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ بَرَدَ لَنَا , وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ عَمِلْنَاهُ بَعْدُ نَجَوْنَا مِنْهُ كَفَافًا رَأْسًا بِرَأْسٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَاكَ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنْ أَبِي".
ہم سے یحییٰ بن بشر نے بیان کیا، کہا ہم سے روح نے بیان کیا، ان سے عوف نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا، کیا تم کو معلوم ہے کہ میرے والد عمر رضی اللہ عنہ نے تمہارے والد ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو کیا جواب دیا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کہا: اے ابوموسیٰ! کیا تم اس پر راضی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اسلام، آپ کے ساتھ ہماری ہجرت، آپ کے ساتھ ہمارا جہاد ہمارے تمام عمل جو ہم نے آپ کی زندگی میں کئے ہیں ان کے بدلہ میں ہم اپنے ان اعمال سے نجات پا جائیں جو ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں گو وہ نیک بھی ہوں بس برابری پر معاملہ ختم ہو جائے۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے اعمال خیر کئے اور ہمارے ہاتھ پر ایک مخلوق نے اسلام قبول کیا، ہم تو اس کے ثواب کی بھی امید رکھتے ہیں اس پر میرے والد نے کہا (خیر ابھی تم سمجھو) لیکن جہاں تک میرا سوال ہے تو اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئے ہوئے ہمارے اعمال محفوظ رہے ہوں اور جتنے اعمال ہم نے آپ کے بعد کئے ہیں ان سب سے اس کے بدلہ میں ہم نجات پا جائیں اور برابر پر معاملہ ختم ہو جائے۔ ابوبردہ کہتے ہیں اس پر میں نے کہا: اللہ کی قسم! آپ کے والد (عمر رضی اللہ عنہ) میرے والد (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) سے بہتر تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3915  
3915. حضرت ابوبردہ بن ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کیا تجھے علم ہے کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کہا تھا: اے ابو موسٰی! کیا یہ بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہمارا اسلام لانا، آپ کے ہمراہ ہمارا ہجرت کرنا، آپ کے ہمراہ ہمارا جہاد کرنا، الغرض آپ کے ہمراہ ہمارے تمام اعمال ہمارے لیے ٹھنڈک کا باعث ہوں، اور وہ اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے بعد کیے ہیں وہ برابری کے معاملے پر ختم ہو جائیں۔ نہ ہمیں ان کا ثواب ملے اور نہ ان کے متعلق باز پرس ہی ہو۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں کیونکہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3915]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کا یہ قول کہ نہ ان کا ثواب ملے اور نہ ان کی وجہ سے عذاب ہو یہ آپ کی بے انتہا خدا ترسی اور احتیاط تھی ان کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو اعمال خیر ہم نے کئے ہیں ان پر ہم کو پورا بھروسا نہیں وہ بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئے یا نہیں ہماری نیت ان میں خالص تھی یا نہیں تو ہم اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ جو اعمال ہم نے کئے ہیں ان کا تو ثواب ہم کو مل جائے نجات کےلئے وہی اعمال کافی ہیں اور آپ کے بعد جو اعمال ہیں ان میں ہم کو کوئی مواخذہ نہ ہو ثواب نہ سہی یہ بھی غنیمت ہے کہ عذاب نہ ہو۔
کیونکہ خوف کا مقام رجاء کے مقام سے اعلیٰ ہے مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ اس باب میں بھی ابو موسیٰ ؓ سے افضل تھے ورنہ حضرت عمر ؓ کی افضیلت مطلقہ ابو موسیٰ ؓ پر تو بالاتفاق ثابت ہے۔
حافظ نے کہا کبھی مفضول کو بھی ایک خاص مقدمہ میں فاضل پر افضلیت ہوتی ہے اور اس سے افضلیت مطلقہ لازم نہیں آتی اور حضرت عمرؓ کا یہ فرمانا کسر نفس اور تواضع اور خوف الٰہی سے تھا ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل اور انصاف ہمارے تمام عمر کے نیک اعمال سے کہیں زیادہ ہے۔
حقیقت تو یہ ہے اگر کوئی منصف آدمی گو وہ کسی مذہب کا ہو حضرت عمر ؓ کی سوانح عمری پر نظر ڈالے تو اس کو بلا شبہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ما در گیتی نے ایسا فرزند بہت ہی کم جنا ہے۔
اور مسلمانوں میں تو آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل خدا پرست خدا ترس رعیت پر ور حاکم پیدا نہیں ہوا۔
معلوم نہیں رافضیوں کی عقل کہاں تشریف لے گئی ہے کہ وہ ایسے جوہر نفیس کو جس کی ذات سے اسلام اور مسلمانوں کا شرف ہے مطعون کرتے ہیں۔
خدا سمجھے اس کا خمیازہ مرتے ہی ان کومعلوم ہو جائے گا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3915   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3915  
3915. حضرت ابوبردہ بن ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کیا تجھے علم ہے کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد گرامی نے آپ کے والد گرامی سے کہا تھا: اے ابو موسٰی! کیا یہ بات آپ کے لیے خوشی کا باعث ہو گی کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہمارا اسلام لانا، آپ کے ہمراہ ہمارا ہجرت کرنا، آپ کے ہمراہ ہمارا جہاد کرنا، الغرض آپ کے ہمراہ ہمارے تمام اعمال ہمارے لیے ٹھنڈک کا باعث ہوں، اور وہ اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے بعد کیے ہیں وہ برابری کے معاملے پر ختم ہو جائیں۔ نہ ہمیں ان کا ثواب ملے اور نہ ان کے متعلق باز پرس ہی ہو۔ اس پر آپ کے والد نے میرے والد سے کہا: اللہ کی قسم! میں اس پر راضی نہیں ہوں کیونکہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی جہاد کیا، نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3915]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں حضرت ابو بردہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت ابن عمر ؓ کے پہلو میں نماز پڑھی۔
میں نےا نس ےسنا۔
آپ نے فرمایا:
جب سے میں مسلمان ہوا ہوں اور جو نماز بھی ادا کی ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ میرےگناہوں کا کفارہ بن جائے۔
(المستدرك علی الصیحین: 442/2، طبع دار الکتب العلمیة)
اس کے بعد انھوں نے مذکورہ واقعہ بیان کیا۔
اس موقف میں بھی حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ خوف کا مقام امید کے مقام سے بہر حال اعلیٰ اور افضل ہے۔
حضرت عمر ؓ کا یہ فرمانا کسر نفسی تواضع اور خوف الٰہی کی بنا پر تھا، ورنہ ان کا ایک ایک عمل اور ایک ایک عدل و انصاف ہماری تمام عمر نیک اعمال سے کہیں زیادہ وزنی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آج تک کوئی ایسا مدبر منتظم عادل حق پرست اور رعایا پردر حاکم پیدا ہی نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 318/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3915