صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
46. بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا۔
حدیث نمبر: 3926
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , أَنَّهَا قَالَتْ:" لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أَبُو بَكْرٍ , وَبِلَالٌ، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ كَيْفَ تَجِدُكَ , وَيَا بِلَالُ كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَتْ: فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى يَقُولُ: كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلَالٌ إِذَا أَقْلَعَ عَنْهُ الْحُمَّى يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ وَيَقُولُ: أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا , وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا , وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما کو بخار چڑھ آیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: والد صاحب! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار چڑھا تو یہ شعر پڑھنے لگے۔ ہر شخص اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے اور موت تو جوتی کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے . اور بلال رضی اللہ عنہ کے بخار میں جب کچھ تخفیف ہوتی تو زور زور سے روتے اور یہ شعر پڑھتے کاش مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ کبھی میں ایک رات بھی وادی مکہ میں گزار سکوں گا جب کہ میرے اردگرد (خوشبودار گھاس) اذخر اور جلیل ہوں گی، اور کیا ایک دن بھی مجھے ایسا مل سکے گا جب میں مقام مجنہ کے پانی پر جاؤں گا اور کیا شامہ اور طفیل کی پہاڑیوں کو ایک نظر دیکھ سکوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد،‏‏‏‏ وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها،‏‏‏‏ وانقل حماها فاجعلها بالجحفة» اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں اتنی پیدا کر دے جتنی مکہ کی تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ، یہاں کی آب و ہوا کو صحت بخش بنا۔ ہمارے لیے یہاں کے صاع اور مد (اناج ناپنے کے پیمانے) میں برکت عنایت فرما اور یہاں کے بخار کو مقام جحفہ میں بھیج دے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 637  
´مکہ اور مدینہ کی فضیلت`
«. . . 472- وبه: أنها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك أبو بكر وبلال، قالت: فدخلت عليهما، فقلت: يا أبت، كيف تجدك؟ وبلال كيف تجدك؟ قالت: فكان أبو بكر إذا أخذته الحمى يقول: كل امرئ مصبح فى أهله ... والموت أدنى من شراك نعله وكان بلال إذا أقلع عنه يرفع عقيرته ويقول: ألا ليت شعري هل أبيتن ليلة ... بواد وحولي إذ خر وجليل وهل أردن يوما مياه مجنة ... وهل يبدون لي شامة وطفيل قالت عائشة: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته، فقال: اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد، وصححها، وبارك لنا فى صاعها ومدها، وانقل حماها واجعلها بالجحفة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کو بخار ہو گیا۔ میں ان کے پاس گئی اور کہا: اے ابا جان! آپ کی صحت کیسی ہے؟ اور اے بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بخار جب (تیز) ہوتا تو کہتے: ہر آدمی اپنے گھر میں صبح کرنے والا ہے اور موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کا جب بخار کم ہوتا تو اپنی بلند آواز میں (مکہ کو یاد کرتے ہوئے) فرماتے: کاش میں جانتا کہ میں ایک رات وادی میں گزاروں گا اور میرے ارد گرد اذخر اور جلیل کی گھاس ہو گی اور کیا میں کسی دن مجنہ کے پانی پر آ سکوں گا؟ اور کیا کبھی میرے لئے شامہ اور طفیل (کی پہاڑیاں) ظاہر ہوں گی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! جس طرح ہم مکہ سے محبت کرتے ہیں اسی طرح یا اس سے زیادہ ہمارے لئے مدینہ کو محبوب بنا اور اسے صحیح کر دے، اس کے (ماپ تول کے پیمانوں) صاع اور مد میں برکت ڈال دے اور اس کے بخار کو یہاں سے نکال کر جحفہ لے جا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 637]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3926، 5677، من حديث مالك، ومسلم 480/ 1376، من حديث هشام بن عروة به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ اولیاء مشکل کشا اور مختار کل نہیں ورنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی بیمار نہ ہوتے۔
➋ بیمار کی بیمارپرسی کرنا مسنون ہے۔
➌ اچھے اشعار پڑھنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں اگر آواز بلند بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
➍ اگر تقویٰ و پرہیزگاری کی وجہ سے آواز میں سوز و گداز پیدا ہو جائے تو جائز ہے۔
➎ مدینہ بھی حرم ہے۔
➏ اہل ایمان کے نزدیک دنیا کے تمام شہروں کے مقابلے میں مکہ اور مدینہ زیادہ محبوب ہیں۔
➐ دعا صرف اللہ سے مانگنی چاہئے۔
➑ مکے اور مدینے سے محبت کرنا اہلِ ایمان کا شعار ہے۔
➒ مکہ اور مدینہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رحمت اور برکت کا نزول ہوتا ہے۔
➓ کفار کے لئے بددعا کی جا سکتی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 472   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3926  
3926. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3926]
حدیث حاشیہ:
جحفہ اب مصروالوں کی میقات ہے۔
اس وقت وہاں یہودی رہا کرتے تھے۔
امام قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلا کہ کافروں کے لئے جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر وقت درپے آزار رہتے ہوں ان کی ہلا کت کے لئے بد دعا کرنا جائز ہے امن پسند کافروں کا یہاں ذکر نہیں ہے مقام جحفہ اپنی خراب آب وہوا کے لئے اب بھی مشہور ہے جو یقینا آنحضرت ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔
حضرت مولانا وحید الزماں نے ان شعروں کا منظوم ترجمہ یوں کیا ہے۔
خیر یت سے ا پنے گھر میں صبح کرتا ہے بشر موت اس کی جوتی کے تسمے سے ہے نزدیک تر کاش میں مکہ کی وادی میں رہوں پھر ایک رات سب طرف میرے اگے ہوں واں جلیل اذخر نبات کاش پھر دیکھوں میں شامہ کاش پھر دیکھوں طفیل اور پیوں پانی مجنہ کے جو ہیں آب حیات شامہ اور طفیل مکہ کی پہاڑیوں کے نام ہیں۔
رونے میں جو آوازنکلتی ہے اسے عقیرہ کہتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3926   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3926  
3926. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار آنے لگا۔ میں (تیمارداری کرنے کے لیے) دونوں کے پاس گئی اور کہا: ابا جان! کیا حال ہے؟ اے بلال! تم کیسے ہو؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو کہتے: ہر کوئی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہے۔ اور حضرت بلال ؓ کا بخار جب اتر جاتا تو وہ بآواز بلند کہتے: کاش! مجھے پتہ چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا، جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہو گی؟ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو حالات سے آگاہ کیا تو آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ہمیں مدینہ طیبہ محبوب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3926]
حدیث حاشیہ:

حجفہ میں اس وقت یہودی رہا کرتے تھے اور یہ مدینہ طیبہ سے سات مراحل پر واقع ہے۔
اس کے اور سمندر کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے۔
اب اہل مصر کا میقات ہے۔
آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے اب بھی مشہور ہے یقیناً رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا اثر ہے۔

حضرت بلال ؓ بخار اترنے کے بعد یہ بھی کہا کرتے تھے۔
اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف پر لعنت کر، انھیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے جیسے انھوں نے ہمیں اس وبائی سر زمین میں آنے پر مجبور کیا۔
(صحیح البخاري، فضائل المدینة، حدیث: 1889)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں حضرت عامر بن فہرہ کے پاس بھی جاتی اور اس سے حال پوچھتی تو وہ بھی کہتے کہ موت آنے سے پہلے ہی مجھے اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی اور عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ حضرات شدت بخار کی وجہ سے ہذیان کا شکار ہیں:
خود حضرت عائشہ ؓ کو مدینے پہنچ کر اس قدر سخت بخار ہوا کہ آپ کے بال جھڑ گئے تھے۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی آب و ہوا کے خوشگوار ہونے کی دعا فرمائی۔
اس کی تفصیل کتاب فضائل المدینہ کے آخر میں حدیث 1889 کے تحت ملاحظہ کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3926