صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
52. بَابُ إِتْيَانِ الْيَهُودِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ:
باب: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس یہودیوں کے آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3944
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَسْدِلُ شَعْرَهُ وَكَانَ الْمُشْرِكُونَ يَفْرُقُونَ رُءُوسَهُمْ , وَكَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَسْدِلُونَ رُءُوسَهُمْ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءٍ , ثُمَّ فَرَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر کے بال کو پیشانی پر لٹکا دیتے تھے اور مشرکین مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی اپنے سروں کے بال پیشانی پر لٹکائے رہنے دیتے تھے۔ جن امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (وحی کے ذریعہ) کوئی حکم نہیں ہوتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے۔ پھر بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مانگ نکالنے لگے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3632  
´کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کو پیشانی پر لٹکائے رکھتے تھے، اور مشرکین مانگ نکالا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی پیشانی پر بال لٹکائے رکھتے، پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3632]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مکہ مکرمہ میں مشرکین کی اکثریت تھی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے امتیاز کے لئے اہل کتا ب کا انداز اختیار فرما لیتے تھے۔
جب رسول ﷺ نے ہجرت فرمائی تو مدینہ میں موجود کثیر اہل کتاب سے فرق کرنے کے لئے دوسرا انداز اختیار فرمایا۔

(2)
رسول اللہ ﷺ کا ہر عمل وحی کی روشنی میں ہوتا تھا اس لئے بال مانگ نکالے بغیر کھلے چھوڑنا منسوخ ہے اور مانگ نکالنا مسنون اور ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3632   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4188  
´بال میں مانگ نکالنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنے بالوں کا «سدل» کرتے یعنی انہیں لٹکا ہوا چھوڑ دیتے تھے، اور مشرکین اپنے سروں میں مانگ نکالتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن باتوں میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے اسی لیے آپ اپنی پیشانی کے بالوں کو لٹکا چھوڑ دیتے تھے پھر بعد میں آپ مانگ نکالنے لگے۔ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4188]
فوائد ومسائل:
واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مانگ نکالنا اللہ کے حکم سےتھا، اگرچہ مشرکین بھی نکالا کرتے تھے۔
پس مشرکین اور کفار کی وہی مشابہت نا جائز ہے جو ان کی دینی اور خاص قومی علامت ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4188   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3944  
3944. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سر کے بال پیشانی پر لٹکاتے تھے جبکہ قریش مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی سر کے بال اپنی پیشانیوں پر لٹکائے رکھتے تھے۔ نبی ﷺ کے پاس جس معاملے کے متعلق اللہ کا حکم نہ آتا تھا آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں نبی ﷺ مانگ نکالنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3944]
حدیث حاشیہ:
شاید بعد میں آپ کواس کا حکم آگیا ہوگا۔
پیشانی پر بال لٹکانا آپ نے چھوڑ دیا اب یہ نصاریٰ کا طریق رہ گیا ہے۔
مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ صرف اپنے رسول کریم ﷺ کا طور طریق چال چلن اختیار کریں اور دوسروں کی غلط رسموں کو ہر گز اختیار نہ کریں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3944   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3944  
3944. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سر کے بال پیشانی پر لٹکاتے تھے جبکہ قریش مانگ نکالتے تھے اور اہل کتاب بھی سر کے بال اپنی پیشانیوں پر لٹکائے رکھتے تھے۔ نبی ﷺ کے پاس جس معاملے کے متعلق اللہ کا حکم نہ آتا تھا آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ بعد میں نبی ﷺ مانگ نکالنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3944]
حدیث حاشیہ:

اہل کتاب چونکہ ایک سماوی شریعت کے قائل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس جن کاموں میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ آتا تو آپ ان کی موافقت پسند فرماتے۔
پھر جب آپ کو بذریعہ وحی پتہ چلا کہ بالوں میں مانگ نکالنا تو ملتِ ابراہیم ہے تو آپ اس پر عمل پیرا ہوئے۔
پھر آپ نے مشرکین کی موافقت کی کوئی پروانہ کی۔

اس حدیث میں یہود کی ایک رسم کا ذکر ہے جس کی مخالفت کی گئی ہے۔
اسی مناسبت سے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3944