صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
3. بَابُ قِصَّةُ غَزْوَةِ بَدْرٍ:
باب: غزوہ بدر کا بیان۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ {123} إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ {124} بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ {125} وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ {126} لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ {127} سورة آل عمران آية 123-127.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی بدر میں جس وقت کہ تم کمزور تھے۔ تو تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ اے نبی! وہ وقت یاد کیجئے، جب آپ ایمان والوں سے کہہ رہے تھے، کیا یہ تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری مدد کے لیے تین ہزار فرشتے اتار دے، کیوں نہیں، بشرطیکہ تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر وہ تم پر فوراً آ پڑیں تو تمہارا پروردگار تمہاری مدد پانچ ہزار نشان کئے ہوئے فرشتوں سے کرے گا اور یہ تو اللہ نے اس لیے کیا کہ تم خوش ہو جاؤ اور تمہیں اس سے اطمینان حاصل ہو جائے۔ ورنہ فتح تو بس اللہ غالب اور حکمت والے ہی کی طرف سے ہوئی ہے اور یہ نصرت اس غرض سے تھی تاکہ کافروں کے ایک گروہ کو ہلاک کر دے یا انہیں ایسا مغلوب کر دے کہ وہ ناکام ہو کر واپس لوٹ جائیں۔ وحشی رضی اللہ عنہ نے کہا حمزہ رضی اللہ عنہ نے طعیمہ بن عدی بن خیار کو بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ الانفال میں) اور وہ وقت یاد کرو کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کر رہا تھا، دو جماعتوں میں سے ایک کے لیے وہ تمہارے ہاتھ آ جائے گی آخر تک۔
حدیث نمبر: 3951
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ:سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ غَيْرَ أَنِّي تَخَلَّفْتُ عَنْ غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتَبْ أَحَدٌ تَخَلَّفَ عَنْهَا , إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عِيرَ قُرَيْشٍ حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ".
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب نے، ان سے عبداللہ بن کعب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے غزوے کئے، میں غزوہ تبوک کے سوا سب میں حاضر رہا۔ البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا لیکن جو لوگ اس غزوے میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ نے عتاب نہیں کیا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے قافلے کو تلاش کرنے کے لیے نکلے تھے۔ (لڑنے کی نیت سے نہیں گئے تھے) مگر اللہ تعالیٰ نے ناگہانی مسلمانوں کو ان کے دشمنوں سے بھڑا دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3951  
3951. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنی جنگیں لڑی ہیں، میں غزوہ تبوک کے علاوہ دیگر تمام جنگوں میں حاضر رہا، البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا، لیکن جو لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ تعالٰی نے عتاب نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قافلہ قریش کو تلاش کرنے کی نیت سے نکلے تھے مگر اللہ تعالٰی نے کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ہی مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان مڈ بھیڑ کرادی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3951]
حدیث حاشیہ:
ہر چند حضرت کعب ؓ جنگ بدر میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے مگر چونکہ بدر میں آنحضرت ﷺ کا قصد جنگ نہ تھا اس لیے سب لوگوں پر آپ نے نکلنا واجب نہیں رکھا برخلاف جنگ تبوک کے۔
اس میں سب مسلمانوں کے ساتھ جانے کا حکم تھا جو لوگ نہیں گئے ان پر اس لیے عتاب ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3951   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3951  
3951. حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے جتنی جنگیں لڑی ہیں، میں غزوہ تبوک کے علاوہ دیگر تمام جنگوں میں حاضر رہا، البتہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکا تھا، لیکن جو لوگ اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے، ان میں سے کسی پر اللہ تعالٰی نے عتاب نہیں کیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ قافلہ قریش کو تلاش کرنے کی نیت سے نکلے تھے مگر اللہ تعالٰی نے کسی طے شدہ پروگرام کے بغیر ہی مسلمانوں اور ان کے دشمنوں کے درمیان مڈ بھیڑ کرادی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3951]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے حضرت کعب بن مالک ؓ کی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا ہے۔
اس کا تفصیلی ذکر آئندہ بیان ہوگا، البتہ اس مقام پر غزوہ بدر کاپس منظر بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنگی تیاری کے ساتھ باہر نہیں نکلے تھے بلکہ آپ کا مقصد صرف ابوسفیان کے قافلے پر گرفت کرنا تھی جو شام کے علاقے سے ہتھیار خرید کر واپس آرہا تھا۔
جب رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ان سے جنگی سامان چھیننے کا پروگرام تشکیل دیا کیونکہ ایسے ہنگامی حالات میں دشمن سے اسلحہ چھین لینا ہی ایک بہترین جنگ چال ہے، بلکہ اس کے برعکس رواداری کرنا سیاسی غلطی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے وعدہ فرمایا تھا کہ دوگروہوں تجارتی قافلے یا لشکر میں سے ایک پر آپ کوکامیاب کرےگا، لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ابوسفیان کے قافلے پر کامیابی زیادہ محبوب تھی کیونکہ اس سے لڑائی کے بغیر جنگی سامان ہاتھ آنے کی اُمید تھی۔
ابوسفیان نے ساحلی راستہ اختیار کیا اور اپنا قافلہ مسلمانوں سے بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہوگیا۔
ادھر ابوجہل اس قافلے کی مدد کے لیے ایک ہزار کی نفری کے ساتھ مکے سے نکل پڑاتھا، چنانچہ مقام بدر میں حق وباطل کے درمیان عظیم معرکہ برپا ہوا۔

رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے جنگ کے ارادے سے نہیں نکلے تھے۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے والوں پر کسی قسم کا اظہارِ ناراضی نہیں فرمایا، لیکن غزوہ تبوک کا معاملہ اسے مختلف تھا۔
اس میں تمام مسلمانوں کو جنگ کے لیے باہرنکلنے کا حکم تھا، اس لیے جو لوگ نہیں گئے ان پرعتاب نازل ہواجن میں حضرت کعب بن مالک ؓ بھی تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3951