صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
8. بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ:
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
حدیث نمبر: 3972
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ قَرَأَ وَالنَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ , غَيْرَ أَنَّ شَيْخًا أَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ فَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا".
ہم سے عبدان بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحٰق نے، انہیں اسود نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ مکہ میں) سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا تو جتنے لوگ وہاں موجود تھے سب سجدہ میں گر گئے۔ سوائے ایک بوڑھے کے کہ اس نے ہتھیلی میں مٹی لے کر اپنی پیشانی پر اسے لگا لیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل ہوا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3853  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ , فَسَجَدَ فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا سَجَدَ إِلَّا رَجُلٌ رَأَيْتُهُ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًا فَرَفَعَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: هَذَا يَكْفِينِي فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا بِاللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور سجدہ کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام لوگوں نے سجدہ کیا صرف ایک شخص کو میں نے دیکھا کہ اپنے ہاتھ میں اس نے کنکریاں اٹھا کر اس پر اپنا سر رکھ دیا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بس اتنا ہی کافی ہے۔ میں نے پھر اسے دیکھا کہ کفر کی حالت میں وہ قتل کیا گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3853]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3853 کا باب: «بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:»
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ باب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر جو مشرکین کی طرف سے مشکلات ہوئیں اشارہ کیا جا رہا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بظاہر کسی بھی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
«كان حق هذا الحديث أن يذكر فى باب الهجرة الي الحبشة المذكور هو قليل فسيأتى فيها أن سجود المشركين المذكور فيه سبب رجوع من هاجر الهجرة الأولي إلى الحبشة لظنهم أن المشركين كلهم أسلموا .» [فتح الباري لابن حجر: 143/7]
اس حدیث کا حق یہ تھا کہ اسے ہجرت کے باب میں ذکر کیا جائے، پس تحقیق اس کا بیان عنقریب آئے گا، اس میں کہ مشرکین کا اس میں سجدہ کرنا تھا (مسلمان) یہ سمجھے کہ یہ مشرک مسلمان ہو گئے ہیں اور جو مسلمان ان کی تکلیف دینے سے حبش کی طرف نکل چکے تھے وہ واپس لوٹ آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں تو دوبارہ وہ مسلمان حبش کی ہجرت کی طرف نکل گئے، پس یہاں پر مسلمانوں کو تکلیف جو ہوئی یہیں سے ترجمتہ الباب کی مناسبت بنتی ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمہ الباب اور حدیث میں مطابقت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث ان امتناع الرجال المذكور فيه عن السجدة مع المسلمين ومخالفة اياهم نوع أذي لهم فلا يخفي ذالك» [عمدة القاري للعيني: 458/16]
باب سے مطابقت حدیث کے یوں ہے کہ اس شخص نے (امیہ بن خلف) نے سجدہ سے انکار کر دیا، پس یہ انکار کر دینا مسلمانوں کے لیے باعث تکلیف تھا اور یہ کسی سے بھی مخفی نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 47   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1406  
´سورۃ النجم میں سجدہ ہے اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، البتہ ایک شخص نے تھوڑی سی ریت یا مٹی مٹھی میں لی اور اسے اپنے منہ (یعنی پیشانی) تک اٹھایا اور کہنے لگا: میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کے بعد اسے دیکھا کہ وہ حالت کفر میں قتل کیا گیا۔ [سنن ابي داود/كتاب سجود القرآن /حدیث: 1406]
1406. اردو حاشیہ:
➊ سورہ نجم میں سجدہ تلاوت ہے۔
➋ پڑھنے اور سننے والے سب ہی سجدہ کریں۔
➌ تکبر سے خیر کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ اور یہ شخص جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ اُمیہ بن خلف تھا۔ جو کفار مکہ کے سرداروں میں سے تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1406   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3972  
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:
یعنی امیہ بن خلف جسے جنگ بدر میں خود بلا ل ؓنے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3972   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3972  
3972. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں آپ نے سجدہ کیا اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی سجدہ کیا لیکن ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ کرنے کی بجائے) مٹھی بھر مٹی اپنے ماتھے پر رکھی اور کہا: مجھے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل کیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3972]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ بوڑھا جس نے زمین پر سجدہ کرنے کے بجائے مٹی یا کنکریاں ہاتھ میں لے کر انھیں پیشانی پر رکھ لیا تھا وہ امیہ بن خلف مردود تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4863)

یہ وہی امیہ بن خلف ہے جسے میدان بدر میں حضرت بلال ؓ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا۔
اس مناسبت سے اس حدیث کو امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3972