صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
8. بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ:
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
حدیث نمبر: 3975
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَصْحَاب رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا لِلزُّبَيْرِ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ: أَلَا تَشُدُّ فَنَشُدَّ مَعَكَ؟ فَقَالَ: إِنِّي إِنْ شَدَدْتُ كَذَبْتُمْ، فَقَالُوا: لَا نَفْعَلُ , فَحَمَلَ عَلَيْهِمْ حَتَّى شَقَّ صُفُوفَهُمْ فَجَاوَزَهُمْ وَمَا مَعَهُ أَحَدٌ , ثُمَّ رَجَعَ مُقْبِلًا فَأَخَذُوا بِلِجَامِهِ , فَضَرَبُوهُ ضَرْبَتَيْنِ عَلَى عَاتِقِهِ بَيْنَهُمَا ضَرْبَةٌ ضُرِبَهَا يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ عُرْوَةُ: كُنْتُ أُدْخِلُ أَصَابِعِي فِي تِلْكَ الضَّرَبَاتِ أَلْعَبُ وَأَنَا صَغِيرٌ، قَالَ عُرْوَةُ: وَكَانَ مَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يَوْمَئِذٍ وَهُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِينَ , فَحَمَلَهُ عَلَى فَرَسٍ وَوَكَّلَ بِهِ رَجُلًا.
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا ‘ انہیں ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے یرموک کی جنگ میں کہا آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے انہوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کر دیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے سب بولے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے دشمن (رومی فوج) پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس وقت ان کے ساتھ کوئی ایک بھی (مسلمان) نہیں رہا پھر (مسلمان فوج کی طرف) آنے لگے تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور مونڈھے پر دو کاری زخم لگائے، جو زخم بدر کی لڑائی کے موقع پر ان کو لگا تھا وہ ان دونوں زخموں کے درمیان میں پڑ گیا تھا۔ عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ یرموک کی لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ گئے تھے، اس وقت ان کی عمر کل دس سال کی تھی اس لیے ان کو ایک گھوڑے پر سوار کر کے ایک صاحب کی حفاظت میں دے دیا تھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3975  
3975. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ نے حضرت زبیر ؓ سے جنگ یرموک کے موقع پر کہا: کیا آپ حملہ نہیں کرتے تاکہ ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر حملہ کریں؟ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا: اگر میں نے حملہ کیا تو تم میرا ساتھ نہیں دو گے۔ انہوں نے کہا: ہم اس طرح ہرگز نہیں کریں گے، چنانچہ حضرت زبیر ؓ نے ان پر حملہ کیا حتی کہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے، حالانکہ ان کے ساتھ اور کوئی بھی نہیں تھا۔ پھر جب واپس آنے لگے تو دشمنوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کندھے پر دوکاری زخم لگائے۔ ان کے درمیان ایک زخم تھا جو بدر کی جنگ میں لگا تھا۔ میں ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتا تھا جبکہ اس وقت میں چھوٹی عمر کا تھا۔ حضرت عروہ نے کہا: جنگ یرموک میں حضرت زبیر ؓ کے ساتھ عبداللہ بن زبیر ؓ بھی تھے جن کی عمر اس وقت صرف دس برس تھی۔ حضرت زبیر ؓ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3975]
حدیث حاشیہ:

ان روایات میں جب راوی حضرت زبیر ؓ کے غزوہ بدر سے متعلق کار نامے بیان کرتا ہے تو زخم کے دو نشانات میدان بدر میں اور ایک نشان یرموک کا ذکر کرتا ہے اور اگر یرموک کی جنگ سے متعلق بہادری کے جوہر بیان کرتا ہے تو دو زخم یرموک کے اور ایک زخم غزوہ بدر کا بیان کرتا ہے دراصل کل زخم چار تھے دو غزوہ بدر میں اور دو ہی یرموک میں آئے تھے۔
لیکن جوزخم یرموک کی لڑائی میں لگے ان میں سے ایک بدر کی لڑائی کے دو زخموں کے درمیان تھا اور دوسرا زخم یوم بدر کے زخموں سے ایک جانب الگ تھا اس لیے ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔
جو راوی یرموک کا ایک زخم بیان کرتا ہے اس کی مراد یوم بدر کے زخموں کے درمیان والا زخم ہے۔
اس کی صورت مندرجہ ذیل ہے بدر، یرموک بدر، یرموک۔

اس حدیث میں حضرت زبیر ؓ کے بدر کے موقع پر کارناموں کا ذکر ہے کہ دشمنوں کو مارتے مارتے ان کی تلوارمیں دندانے پڑچکے تھے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔

یرموک شام کے علاقے میں ایک مقام کا نام ہے جو دمشق کے قریب ہے۔
اس مقام پر رومیوں نے چاروں طرف سے اپنی قوت جمع کر کے مقابلہ کیا تھا۔
اس میں ستر ہزار رومیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا تاکہ ان میں سے کوئی بھاگ نہ سکے ان کی فوج بیس لاکھ کے قریب تھی۔
ان میں سے ایک لاکھ پانچ ہزار رومی قتل ہوئے۔
چالیس ہزار قیدی بنائے گئے اور باقی بھاگ گئے جبکہ مسلمانوں کی تعداد چار لاکھ تھی۔
اس لڑائی میں اہل بدر میں سے ایک سو صحابہ کرام ؓ نے شرکت کی، معرکہ یرموک 13 ہجری میں حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیش آیا۔
مسلمانوں کی فوت کے کمانڈر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ تھے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح دی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3975