صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
8. بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ:
باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
حدیث نمبر: 3976
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَمِعَ رَوْحَ بْنَ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ , فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ , وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلَاثَ لَيَالٍ , فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا , ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ، وَقَالُوا: مَا نُرَى يَنْطَلِقُ إِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِهِ حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِيِّ فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، وَيَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ , فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا , فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟ قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ"، قَالَ قَتَادَةُ: أَحْيَاهُمُ اللَّهُ حَتَّى أَسْمَعَهُمْ قَوْلَهُ تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنَقِيمَةً وَحَسْرَةً وَنَدَمًا".
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا انہوں نے روح بن عبادہ سے سنا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا، ہم سے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قریش کے چوبیس مقتول سردار بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دئیے گئے۔ عادت مبارکہ تھی کہ جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام فرماتے جنگ بدر کے خاتمہ کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سوای پر کجاوہ باندھا گیا اور آپ روانہ ہوئے آپ کے اصحاب بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے کہا، غالباً آپ کسی ضرورت کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین سرداروں کے نام ان کے باپ کے نام کے ساتھ لے کر آپ انہیں آواز دینے لگے کہ اے فلاں بن فلاں! اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بات بہتر نہیں تھی کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ بیشک ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں پوری طرح حاصل ہو گیا تو کیا تمہارے رب کا تمہارے متعلق جو وعدہ (عذاب کا) تھا وہ بھی تمہیں پوری طرح مل گیا؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بول پڑے: یا رسول اللہ! آپ ان لاشوں سے کیوں خطاب فرما رہے ہیں؟ جن میں کوئی جان نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں تم لوگ ان سے زیادہ اسے نہیں سن رہے ہو۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کر دیا تھا (اس وقت) تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنی بات سنا دیں ان کی توبیخ ‘ ذلت ‘ نامرادی اور حسرت و ندامت کے لیے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3976  
3976. حضرت ابوطلحہ ؓ سے روایت ہے کہ بدر کی لڑائی میں اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ قریش کے چوبیس (24) مقتول سردار مقام بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دیے جائیں۔ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاد میں جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام کرتے، چنانچہ جنگ بدر کے خاتمے کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا تو آپ روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ آپ شاید اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے تشریف لے جا رہے ہیں۔ آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین کے نام اور ان کے باپ دادا کے نام لے کر انہیں پکارنے لگے: اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بہتر نہیں تھا کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ یقینا ہمارے رب نے ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3976]
حدیث حاشیہ:
جو لوگ اس واقعہ سے سماع موتی ثابت کرتے ہیں، وہ سراسر غلطی پر ہیں کیونکہ یہ سنانا رسول کریم ﷺ کا ایک معجزہ تھا، دوسری آیت میں صاف موجود ہے:
﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ یعنی تم قبر والوں کو سنانے سے قاصرہو۔
مرنے کے بعد جملہ تعلقات دنیاوی ٹوٹنے کے ساتھ دنیاوی زندگی کے لوازمات بھی ختم ہوجاتے ہیں سننا بھی اسی میں شامل ہے اگر مردے سنتے ہوں تو ان پر مردگی کا حکم لگانا ہی غلط ٹھہر تا ہے بہرحال عقل ونقل سے وہی صحیح اور حق ہے کہ مرنے کے بعد انسان کے جملہ حواس دنیاوی ختم ہوجاتے ہیں نیک مردوں کو اللہ تعالی عالم برزخ میں کچھ سنا دے یہ بالکل علیحدہ چیز ہے اس سے سماع موتی کا کوئی تعلق نہیں ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3976   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3976  
3976. حضرت ابوطلحہ ؓ سے روایت ہے کہ بدر کی لڑائی میں اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ قریش کے چوبیس (24) مقتول سردار مقام بدر کے ایک بہت ہی اندھیرے اور گندے کنویں میں پھینک دیے جائیں۔ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاد میں جب دشمن پر غالب ہوتے تو میدان جنگ میں تین دن تک قیام کرتے، چنانچہ جنگ بدر کے خاتمے کے تیسرے دن آپ کے حکم سے آپ کی سواری پر کجاوہ باندھا گیا تو آپ روانہ ہوئے۔ آپ کے ساتھ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ انہوں نے خیال کیا کہ آپ شاید اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے تشریف لے جا رہے ہیں۔ آخر آپ اس کنویں کے کنارے آ کر کھڑے ہو گئے اور کفار قریش کے مقتولین کے نام اور ان کے باپ دادا کے نام لے کر انہیں پکارنے لگے: اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں! کیا آج تمہارے لیے یہ بہتر نہیں تھا کہ تم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی؟ یقینا ہمارے رب نے ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3976]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ مفتوحہ علاقوں میں تین دن تک قیام فرمایا کرتے تھے تاکہ
شہداء کی قبریں کھود کر انھیں دفن کیا جائے۔
کفار کے مقتولین کے لیے گڑھے کھود کر ان میں ڈالا جائے۔
زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے۔
مفتوحہ علاقے کا انتظام کیا جائیے۔
اس علاقے کے گردو پیش میں اگر کوئی فتنہ فساد ہو تو اس کا بندو بست کیا جائے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث کے آخر میں راوی حدیث حضرت قتادہ کی تاویل امام بخاری ؒ نے اس لیے پیش کی ہے تاکہ ان لوگوں کی تردید کی جائے جو سماع موتی کے قائل ہیں۔
(فتح الباري: 378/7)
واقعی جو لوگ اس سے سماع موتی ثابت کرتے ہیں ان کا موقف مبنی بر حقیقت نہیں ہے کیونکہ یہ سنانا تو رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا دوسرا یہ بھی ہے کہ آیت میں وضاحت ہے کہآپ قبر والوں کو نہیں سنا سکتے۔
(فاطر: 22/35)

سونے کے بعد جملہ دنیاوی تعلقات ٹوٹنے کے ساتھ دنیاوی زندگی کے لوازمات بھی ختم ہو جاتے ہیں سننا بھی اس میں شامل ہے۔
عالم برزخ میں اگر اللہ تعالیٰ کسی کوکچھ سنا دے تو یہ ایک چیز ہے اس کا سماع موتی سے کوئی تعلق نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3976