صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
10. بَابُ فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا:
باب: بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3990
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ذُكِرَ لَهُ , أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَكَانَ بَدْرِيًّا مَرِضَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ , فَرَكِبَ إِلَيْهِ بَعْدَ أَنْ تَعَالَى النَّهَارُ وَاقْتَرَبَتِ الْجُمُعَةُ وَتَرَكَ الْجُمُعَةَ.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جمعہ کے دن ذکر کیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما جو بدری صحابی تھے، بیمار ہیں۔ دن چڑھ چکا تھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما سوار ہو کر ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اتنے میں جمعہ کا وقت قریب ہو گیا اور وہ جمعہ کی نماز (مجبوراً) نہ پڑھ سکے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3990  
3990. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ان سے ذکر کیا گیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ جو جنگ بدر میں شریک تھے، جمعہ کے دن بیمار ہو گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سوار ہوئے اور ان کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے جبکہ سورج بلند ہو چکا تھا اور جمعہ کا وقت قریب تھا لیکن انہوں نے جمعہ نہ پڑھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3990]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا بیان کرنے سے یہاں غرض یہ ہےکہ سعید بن زید ؓ بدر والوں میں تھے۔
گویہ جنگ میں شریک نہ تھے۔
کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ان کواورطلحہ کومحکمہ جاسوسی سپرد کردیا تھا۔
ان کوواپسی سےپہلے ہی لڑائی شروع ہوگئی۔
جب یہ لوٹ کر آئے توآنحضرت ﷺ نےمجاہدین کی طرح ان کابھی حصہ لگایا، اس وجہ سے یہ بھی بدری ہوئے۔
یہ حضرت عمرؓ کےعم زاد بھائی اوران کے بہنوائی بھی تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نےان کی عیادت ضروری سمجھی، وہ مرنے کےقریب ہورہےتھے، اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے جمعہ کی نماز کوبھی مجیورا ترک کردیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3990   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3990  
3990. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ان سے ذکر کیا گیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ جو جنگ بدر میں شریک تھے، جمعہ کے دن بیمار ہو گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سوار ہوئے اور ان کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے جبکہ سورج بلند ہو چکا تھا اور جمعہ کا وقت قریب تھا لیکن انہوں نے جمعہ نہ پڑھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3990]
حدیث حاشیہ:

حضرت سعید بن زید ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ کے چچا زاد بھائی اور ان کے بہنوئی ہیں۔
بہت مستجاب الدعوات تھے۔

انھیں براه راست غزوہ بدر میں شرکت کا موقع نہیں ملا لیکن انھیں بدری کہا جاتا ہے۔
انھیں اور حضرت طلحہ ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوسی کے لیے کہیں بھیجا تھا۔
وہ غزوہ بدر کے بعد اپنی مہم سے فارغ ہو کر واپس آئے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں مال غنیمت سے حصہ دیا گویا یہ حکمی طور پر بدری ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عذر کی وجہ سے جمعہ کے دن سفر شروع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت سعید بن زید ؓ کی تیمارداری کے لیے جمعہ کے دن اپنے سفر کا آغاز کیا۔
اس عذر کیوجہ سے انھوں نے جمعہ ادا نہ کیا کیونکہ انھیں مجبوری لاحق تھی۔
ہاں اگر جمعے کا وقت ہو چکا ہو تو سفر جائز نہیں۔
پہلی صورت میں بھی صرف جواز ہے البتہ ترک اولیٰ ضرور ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3990