صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4004
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: أَنْفَذَهُ لَنَا ابْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ، سَمِعَهُ مِنَ ابْنِ مَعْقِلٍ، أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَبَّرَ عَلَى سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، فَقَالَ" إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا".
مجھ سے محمد بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا کہ یہ روایت ہمیں عبدالرحمٰن بن عبداللہ اصبہانی نے لکھ کر بھیجی، انہوں نے عبداللہ بن معقل سے سنا کہ علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے جنازے پر تکبیریں کہیں اور کہا کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 454  
´بزرگی اور شرف کا لحاظ رکھتے ہوئے چار سے زائد تکبریں`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ میں چھ تکبیریں کہیں اور فرمایا کہ وہ بدری تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 454]
لغوی تشریح:
«بَدَرِيّ» بدری سے مراد یہ ہے کہ وہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ بدری ہونے کا شرف و بزرگی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے چھ تکبیریں کہیں کہ اس طرح ان کے لیے زیادہ دعا کی جا سکے۔

فائدہ:
اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کسی کی بزرگی اور شرف کا لحاظ رکھتے ہوئے چار سے زائد تکبریں کہی جا سکتی ہیں۔ مزید تفصیل پچھلی حدیث (بلوغ المرام حدیث 252) میں کی گئی ہے۔

وضاحت:
[حضرت سہل رضی اللہ عنہ بن حنیف ] حنیف تصغیر ہے۔ انصاری، اوسی اور مدنی ہیں۔ غزوہ بدر اور باقی غزوات و مشاہد میں حاضر تھے۔ غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بصرہ پر عامل مقرر کیا اور صفین میں بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہجرت مدینہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے مابین مواخات ہوئی۔ 38 ہجری میں وفات ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 454   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4004  
4004. حضرت عبداللہ بن معقل مزنی سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے سہل بن حنیف ؓ کے جنازے پر تکبیریں کہیں اور فرمایا: وہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4004]
حدیث حاشیہ:
تکبیریں تو سب ہی جنازوں پر کہی جاتی ہیں مگر حضرت علی ؓ نے ان کے جنازے پر زیادہ تکبیریں کہیں یعنی پانچ یا چھ جیسا کہ دوسری روایتوں میں ہے۔
گویا حضرت علیؓ نے زیادہ تکبیریں کہنے کی وجہ بیان کی کہ وہ بدری تھے۔
ان کو خاص درجہ حاصل تھا۔
اگرچہ جنازے پر5,6,7 تک تکبیریں کہی جاتی ہیں مگر آنحضرت ﷺ کا آخری عمل چار تکبیروں کا ہے اس لیے اب ان ہی پر اجماع امت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4004   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4004  
4004. حضرت عبداللہ بن معقل مزنی سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے سہل بن حنیف ؓ کے جنازے پر تکبیریں کہیں اور فرمایا: وہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4004]
حدیث حاشیہ:

تکبیرات تو تمام جنازوں میں کہی جاتی ہیں مگر حضرت علی ؓ نے ان کے جنازے میں زیادہ تکبیریں کہیں اور زیادہ تکبیریں کہنے کی وجہ یہ بیان کی کہ انھوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی اور انھیں اس وجہ سے خاص درجہ حاصل تھا۔

اگرچہ نماز جنازہ میں پانچ چھ اور سات تکبیرات کہنے کا ذکر روایات میں آیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کا آخری عمل جنازے پر چار تکبیرات کہنے کا ہے اور اسی پر اجماع امت ہے۔

اس حدیث میں حضرت سہل بن حنیف ؓ کی غزوہ بدر میں شرکت کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 394/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4004