صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4011
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَكَانَ مِنْ أَكْبَرِ بَنِي عَدِيٍّ وَكَانَ أَبُوهُ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ عُمَرَ اسْتَعْمَلَ قُدَامَةَ بْنَ مَظْعُونٍ عَلَى الْبَحْرَيْنِ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ خَالُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , وَحَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہمیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ قبیلہ بنی عدی کے سب لوگوں میں بڑے تھے اور ان کے والد عامر بن ربیعہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ) عمر رضی اللہ عنہ نے قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بحرین کا عامل بنایا تھا، وہ قدامہ رضی اللہ عنہ بھی بدر کے معرکے میں شریک تھے اور عبداللہ بن عمر اور حفصہ رضی اللہ عنہم کے ماموں تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4011  
4011. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے خبر دی، وہ قبیلہ بنو عدی کے اکابر میں سے ہیں اور ان کے والد گرامی نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت قدامہ بن مظعون ؓ کو بحرین کا حاکم مقرر کیا۔ یہ بھی بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ حضرت عبداللہ بن عمر اور ام المومنین حضرت حفصہ رضي اللہ عنھم کے ماموں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4011]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن عامر بن ربیعہ گو بنی عدی میں سے نہ تھے مگر ان کے حلیف تھے اس لیے ان کو بنی عدی کہہ دیا۔
بعض نسخوں میں بنی عدی کے بدلے بنی عامربن ربیعہ ہے۔
جو صحابی مشہور ہیں انکے سب بیٹوں میں عبد اللہ بڑے تھے۔
کہتے ہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں پیدا ہوچکے تھے۔
عجلی نے انکو ثقہ کہا ہے۔
حدیث میں بدری بزرگوں کا ذکر ہے یہی باب سے وجہ مناسبت ہے۔
حضرت قدامہ بن مظعون ؓ جو روایت میں مذکور ہیں عہد فاروقی میں بحرین کے حاکم تھے مگر بعد میں حضرت عمر ؓ نے ان کو معزول فرماکر حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کو بحرین کا عامل بنا دیا تھا۔
حضرت قدامہ ؓ کی یہ شکایت آپ نے سنی تھی کہ وہ نشہ آور چیز استعمال کرتے ہیں۔
یہ جرم ثابت ہونے پر حضرت عمر ؓ نے ان پر حد قائم کی اور ان کو معزول کردیا۔
پھر ایسا اتفاق ہوا کہ سفرحج میں حضرت قدامہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ ہوگئے۔
ایک شب یہ سوکر عجلت میں اٹھے اور فرمایا کہ فوراً میرے پاس قدامہ کو حاضر کرو۔
میرے پاس خواب میں ابھی آنے والا آیا اور کہہ گیا ہے کہ میں قدامہ ؓ سے صلح کرلوں۔
آپ اور وہ اسلامی بھائی بھائی ہیں۔
چنانچہ حضرت عمر ؓ نے ان سے صلح صفائی کرلی اور وہ پہلی خلش دل سے نکال دی۔
(قسطلانی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4011   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4011  
4011. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے خبر دی، وہ قبیلہ بنو عدی کے اکابر میں سے ہیں اور ان کے والد گرامی نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت قدامہ بن مظعون ؓ کو بحرین کا حاکم مقرر کیا۔ یہ بھی بدر کی جنگ میں شریک تھے۔ اور یہ حضرت عبداللہ بن عمر اور ام المومنین حضرت حفصہ رضي اللہ عنھم کے ماموں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4011]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے حضرت عامر بن ربیعہ اور قدامہ بن مظعون ؓ کو بدری صحابی ثابت کیا ہے۔
حضرت قدامہ بن مظعون ؓ کی ہمشیرہ زینب بنت مظعون حضرت عمر ؓ کی زوجہ محترمہ تھیں اور حضرت عمر ؓ کی ہمشیرہ صفیہ بنت خطاب حضرت قدامہ بن مظعون ؓ کے نکاح میں تھیں اس بنا پر یہ دونوں ایک دوسرے کے بہنوئی ہیں اور حضرت قدامہ ؓ جناب عبد اللہ بن عمر ؓ اور اُم المومنین حضرت صفیہ ؓ کے ماموں ہیں۔
(عمدة القاري: 56/12)

حضرت قدامہ بن مظعون ؓ عہد فاروقی میں بحرین کے حاکم تھے ان کے متعلق شراب نوشی کی شکایت ملی تو حضرت عمر ؓ نے انھیں معزول کر کے حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ کو وہاں کا حاکم تعینات کیا پھر جرم ثابت ہونے پر ان پر حد جاری کی پھر ایسا اتفاق ہوا کہ سفر حج میں دونوں اکٹھے ہو گئے۔
حضرت عمر ؓ ایک شب سو کر جلدی اٹھے اور فرمایا:
میرے پاس قدامہ کو حاضر کرو۔
مجھے خواب میں ان سے صلح کرنے کی تلقین کی گئی ہے، وہ میرے اسلامی بھائی ہیں چنانچہ حضرت عمر ؓ نے اپنے دل سے خلش نکال کر ان سے صلح کر لی۔
(فتح الباري: 400/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4011