صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4015
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , وَيُونُسُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ , أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ, أَنَّ عَمْرَو بْنَ عَوْفٍ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ , فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنْ الْبَحْرَيْنِ فَسَمِعَتْ الْأَنْصَارُ بِقُدُومِ أَبِي عُبَيْدَةَ، فَوَافَوْا صَلَاةَ الْفَجْرِ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا انْصَرَفَ تَعَرَّضُوا لَهُ , فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُمْ، ثُمَّ قَالَ:" أَظُنُّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِشَيْءٍ"، قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" فَأَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ , فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ تُبْسَطَ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ , فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک مروزی نے خبر دی، کہا ہم کو معمر اور یونس دونوں نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنی عامر بن لوی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ (نے بیان کیا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین، وہاں کا جزیہ لانے کے لیے بھیجا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کی تھی اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا تھا، پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال ایک لاکھ درہم لے کر آئے۔ جب انصار کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے آنے کی خبر ہوئی تو انہوں نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو تمام انصار آپ کے سامنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ اطلاع مل گئی ہے کہ ابوعبیدہ مال لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو اور جس سے تمہیں خوشی ہو گی اس کی امید رکھو۔ اللہ کی قسم! مجھے تمہارے متعلق محتاجی سے ڈر نہیں لگتا، مجھے تو اس کا خوف ہے کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلوں پر کشادہ کی گئی تھی، پھر پہلوں کی طرح اس کے لیے تم آپس میں رشک کرو گے اور جس طرح وہ ہلاک ہو گئے تھے تمہیں بھی یہ چیز ہلاک کر کے رہے گی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3997  
´مال دولت کا فتنہ۔`
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو بنو عامر بن لوی کے حلیف تھے اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کا جزیہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی، اور ان پر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، ابوعبیدہ (ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ) بحرین سے مال لے کر آئے، اور جب انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی تو سب نماز فجر میں آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی، پھر جب آپ نماز پڑھ کر لوٹے، تو راستے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3997]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دولت ایک آزمائش ہے۔
اس کی حرص کی وجہ سے ظلم اور گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے۔

(2)
مال حلال طریقے سے حاصل ہو اور اس پر قناعت کی جائے تو برا نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3997   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2462  
´باب:۔۔۔`
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ نے خبر دی ہے کہ عمرو بن عوف رضی الله عنہ (یہ بنو عامر بن لوی کے حلیف اور جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوعبیدہ بن جراح رضی الله عنہ کو بھیجا پھر وہ بحرین (احساء) سے کچھ مال غنیمت لے کر آئے، جب انصار نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو وہ سب فجر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، ادھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے فارغ ہو کر واپس ہوئے تو لوگ آپ کے سامنے آئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا: شاید تم لوگوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال واسباب کی فراوانی دینی اعتبار سے فقرو تنگ دستی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے،
یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا،
تاکہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں،
لیکن افسوس صد افسوس مال واسباب کی اسی کثرت نے لوگوں کی اکثریت کو دین سے غافل کردیا،
اور آج وہ چیز ہمارے سامنے ہے جس کا آپﷺ کو اندیشہ تھا،
حالاں کہ مال جمع کرنے سے آدمی سیر نہیں ہوتا بلکہ مال کی فروانی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر مال کی بھوک بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کی مٹی ہی اس کا پیٹ بھرسکتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2462   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4015  
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث باب الجزیہ میں گزرچکی ہے۔
یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ صحابی بدری تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4015   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4015  
4015. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عمرو بن عوف ؓ۔۔ جو بنو عامر بن لؤی کے حلیف اور نبی ﷺ کے ساتھ غزوہ بدر میں شریک تھے۔۔ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو جزیہ لانے کے لیے بحرین روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور آپ نے علاء بن حضرمی ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر کیا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ بحرین سے مال لائے۔ جب انصار نے ابو عبیدہ کے آنے کی خبر سنی تو انہوں نے نماز فجر نبی ﷺ کے ساتھ ادا کی۔ آپ ﷺ جب (نماز سے) فارغ ہوئے تو وہ (انصار) آپ کے سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ مسکرائے۔ پھر آپ نے فرمایا: میرا خیال ہے تم نے سن لیا ہے کہ ابوعبیدہ کچھ مال لائے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تمہیں بشارت ہو اور تم اس چیز کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4015]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں ذکر ہے کہ حضرت عمرو بن عوف ؓ نے غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شرکت کی تھی۔
وہ غزوہ احد، خندق اور دیگر غزوات میں بھی شریک ہوئے تھے۔
حضرت عمر ؓ کے دور حکومت میں فوت ہوئے اور حضرت عمر ؓ ہی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔

بحرین بصرہ اور عمان کے درمیان ایک مقام کا نام ہے۔
ان کے باشندوں سے جزیے کی ادائیگی پر صلح کر لی گئی تھی۔
وہاں کے گورنر حضرت علاء بن حضرمی ؓ تھے ان کی وفات کے بعد حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو وہاں کا حاکم مقرر فرمایا۔

رسول اللہ ﷺ نے بڑی قیمتی نصیحت فرمائی ہے کہ فقر اور تنگ دستی اس قدر نقصان دی نہیں جس ققدر مال و دولت کی فراوانی نقصان دہ ہے کیونکہ غربت میں اللہ یادر رہتا ہے جبکہ دولت کے نشے میں اللہ بھول جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4015