صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4023
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ , وَذَلِكَ أَوَّلَ مَا وَقَرَ الْإِيمَانُ فِي قَلْبِي".
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا، آپ مغرب کی نماز میں سورۃ والطور کی تلاوت کر رہے تھے، یہ پہلا موقع تھا جب میرے دل میں ایمان نے قرار پکڑا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 140  
´نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھنا`
«. . . عن محمد بن جبير بن مطعم عن ابيه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا بالطور فى المغرب . . .»
. . . سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 140]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 765، ومسلم 463، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نماز مغرب میں (پوری) سورۂ طور اور اسی طرح سورۂ مرسلات کی قرأت ثابت ہے۔ دیکھئے: [الموطأ: ح 49]
➋ ابوعبداللہ الصنانکی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے خلافت (کے دور) میں مدینہ آیا تو آپ کے پیچھے مغرب کی نماز پڑھی۔ آپ نے پہلی دو رکعتوں میں (ہر رکعت میں) سورۂ فاتحہ اور قصارِ مفصل کی ایک (ایک) سورت پڑھی پھر تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور ایک آیت «رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ» پڑھی۔ [الموطأ 1/79 ح170، وسنده صحيح]
اس صدیقی اثر سے دو مسئلے معلوم ہوئے:
اول:
ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے لہٰذا جو لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ نماز کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ بھی نہ پڑھا جائے تو نماز جائز ہے۔ یہ قول باطل ہے۔
دوم:
تیسری (اور چوتھی) رکعت میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں سے پڑھنا جائز ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ (رباعی نماز کی) چاروں رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے تھے اور بعض اوقات ایک رکعت میں دو یا تین سورتیں بھی پڑھ لیتے تھے۔ ديكهئے: [الموطأ 1/79 ح171، وسنده صحيح]
➍ اس روایت کی بعض سندوں میں آیا ہے کہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے ہوئے سنا تو اس وقت جبیر رضی اللہ عنہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
اس سے علمائے کرام نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو جائے تو حالت اسلام میں حالت کفر والی روایتیں بیان کر سکتا ہے اور انہیں قبول کیا جائے گا بشرطیکہ یہ راوی حالت اسلام میں ثقہ وصدوق ہو۔
➎ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد بھی ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ نماز مغرب کا وقت بہت کم ہوتا ہے لہٰذا اس میں بالکل چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی جائیں۔!
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 69   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 227  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن جبير بن مطعم رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقرأ في المغرب بالطور . متفق عليه. . . .»
. . . سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں سورۃ «الطور» پڑھتے سنا ہے۔ (بخاری و مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 227]

فوائد و مسائل:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو یہی تھا کہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے، مگر بعض اوقات لمبی سورت بھی پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اس حدیث میں سورہ طور پڑھنا ثابت ہوا۔ بعض روایات میں المرسلات، أعراف اور أنعام کا نماز مغرب میں پڑھنا بھی ثابت ہے۔ [صحيح البخاري، الأذان، حديث: 763، وسنن أبى داود، الصلاة، حديث: 812]
➋ آپ کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے سفر کے دوران میں صبح کی فرض نماز میں صرف معوذتین کی تلاوت کی۔ [سنن أبى داود، الوتر، باب فى المعوذتين، حديث: 1462] نیز سیدنا معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں «اِذَا زُلْزِلَتُ» تلاوت فرمائی۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب الرجل يعيد سورة واحدة فى الركعتين، حديث: 816] بہرحال عام معمول وہی تھا جو اوپر مذکور ہوا، البتہ کبھی کبھی اس کے خلاف بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 227   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث832  
´مغرب میں پڑھی جانے والی سورتوں کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں «والطور» پڑھتے سنا۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے ایک دوسری حدیث میں کہا کہ جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الطور میں سے یہ آیت کریمہ «أم خلقوا من غير شيء أم هم الخالقون» سے «فليأت مستمعهم بسلطان مبين»، یعنی: کیا یہ بغیر کسی پیدا کرنے والے کے خودبخود پیدا ہو گئے ہیں؟ کیا انہوں نے ہی آسمانوں و زمینوں کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں، یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا ان خزانوں کے یہ داروغہ ہیں، یا کیا ان کے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 832]
اردو حاشہ:
فائدہ:
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ بد ر میں مشرکوں کی طرف سے شریک تھے۔
مسلمانوں نے جن غیر مسلموں کو جنگ میں گرفتار کیا تھا۔
ان میں یہ بھی شامل تھے۔
جب انھیں گرفتار کرکے مدینہ لایا گیا۔
اس دوران میں انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے مغرب کی نماز میں قرآن سنا۔ (صحیح البخاري، الجھاد، باب فداء المشرکین، حدیث 3050)
 اس موقع پر ان کے دل میں ایمان جاگزیں ہوگیا۔ (صحیح البخاري، المغاذي، باب 12، حدیث: 4023)
قرآن کے اس اثر کو زیر مطالعہ حدیث میں انھوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
کہ قرآن سن کر مجھے یوں محسوس ہوا گویا میرا دل سینے سے نکل جائے گا۔
یعنی دل پر قرآن کا اس قدراثر ہوا کہ دل اسلام قبول کرنے کےلئے بے تاب ہوگیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 832