صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
23. بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:
باب: سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا (جائز ہے)۔
وَقَالَ الْحَسَنُ: كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّهِ.
‏‏‏‏ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
حدیث نمبر: 385
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 660  
´آدمی اپنے کپڑے پر سجدہ کرے اس کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، تو جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پر نہیں ٹیک پاتا تھا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کرتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 660]
660۔ اردو حاشیہ:
➊ سجدے کی جگہ پر کوئی چٹائی، چمڑا یا کپڑا وغیرہ بچھایا گیا ہو تو کوئی حرج نہیں، البتہ پیشانی کا ننگا ہونا اور ننگی زمین پر سجدہ کرنا افضل اور بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث: 375 وصحيح مسلم، حديث: 620]
➋ نماز میں خشوع ایک اہم اور ضروری عمل ہے اسے کرنے اور قائم رکھنے کے لیے گرمی سردی سے بچنے یا اس قسم کے معمولی اعمال نماز کے دوران میں بھی جائز ہیں تاکہ ذہن اور جسم ان عوارض میں الجھا نہ رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 660   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1033  
´گرمی اور سردی میں کپڑوں پہ سجدہ کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پہ نہ رکھ سکتا تو اپنا کپڑا بچھا لیتا، اور اس پر سجدہ کرتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1033]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ا س حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوجاتا ہے۔
کہ زمین کی گرمی یا سردی سے بچاؤ کےلئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست ہے۔

(2)
زمین پر پیشانی نہ رکھ سکنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین بہت گرم ہوتی تھی اس لئے جب چہرہ زمین کو چھوتا تھا تو تکلیف محسوس ہوتھی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1033   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:385  
385. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم میں سے کوئی شخص سخت گرمی کی وجہ سے سجدے کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:385]
حدیث حاشیہ:

جمہور محدثین کے نزدیک طرف الثوب کے یہی معنی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدہ کرتے تھے۔

امام شافعی ؒ ثوب ملبوس کے فاضل حصے پر سجدے کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ ایسا کپڑا نمازی کے ساتھ نماز میں شامل ہے، گویا وہ نمازی کے بدن کا حصہ ہے، اس لیے ایسے ثوب ملبوس پر سجدہ زمین پر سجدہ نہیں۔
بلکہ اپنے حصے پر سجدہ ہے جس کی اجازت نہیں۔
ان کےنزدیک طرف الثوب سے مراد یا تو وہ کپڑا ہے جو نماز کے بدن پر نہ ہو اگر بدن پر نہ ہو اگر بدن پر ہو تو وہ اتنی گنجائش رکھتا ہو کہ اس کا سجدے کی جگہ پر ڈالا گیا حصہ نمازی کی حرکت سے متحرک نہ ہو لیکن جمہور کے نزدیک سجدے میں نماز کا پہنا ہوا کپڑا اور دوسرے کپڑے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی مجموعی حالت یہ تھی کہ ان کے پاس تو پہننے کے کپڑے بھی پورے نہ تھے چہ جائیکہ فاضل کپڑے ہوں جنھیں محل سجدہ میں ڈال لیا کریں اور نہ بدن کے کپڑے میں اتنی کشادگی کا امکان ہی ہے کہ نمازی کی حرکت سے وہ متحرک نہ ہو۔
اس لیے یہ فرق قابل قبول نہیں۔
عنوان میں حضرت حسن بصری ؒ کے اثر سے جمہور کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 385