صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
12. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4026
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ:" هَذِهِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُلْقِيهِمْ:" هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا"، قَالَ: مُوسَى، قَالَ نَافِعٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُنَادِي نَاسًا أَمْوَاتًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا قُلْتُ مِنْهُمْ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ:" فَجَمِيعُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ قُرَيْشٍ مِمَّنْ ضُرِبَ لَهُ بِسَهْمِهِ أَحَدٌ وَثَمَانُونَ رَجُلًا , وَكَانَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: قَالَ الزُّبَيْرُ: قُسِمَتْ سُهْمَانُهُمْ فَكَانُوا مِائَةً وَاللَّهُ أَعْلَمُ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے اور ان سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کا بیان تھا۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ جب (بدر کے) کفار مقتولین کنویں میں ڈالے جانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس چیز کو پا لیا جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ موسیٰ نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں نے ان سے کہا ہے اسے خود تم نے بھی ان سے زیادہ بہتر طریقہ پر نہیں سنا ہو گا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ قریش (صحابہ) کے جتنے لوگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور جن کا حصہ بھی (اس غنیمت میں) لگا تھا، ان کی تعداد اکیاسی تھی۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے تھے کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، میں نے (ان مہاجرین کے حصے) تقسیم کئے تھے اور ان کی تعداد سو تھی اور زیادہ بہتر علم اللہ کو ہے۔
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1370  
´مرد ے سنتے ہیں ایک استثناء`
«. . . قَالَ:" اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ , فَقَالَ: وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، فَقِيلَ لَهُ: تَدْعُو أَمْوَاتًا، فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں والوں (جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا) کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پا لیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1370]

فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ:
صحیح بخاری [567/2،:3981-3980] میں ہے:
«انهم الان يسمعون ما اقول» وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔
↰ اس سے معلوم ہوا کہ مردے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا: «الآن» یعنی اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔

◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«قال (أبو عبدالله محمد بن على - 453-536هـ -) المازري: قال بعض الناس: الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.»
علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔ [شرح صحيح مسلم: 387/2]

◈ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
«ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب»
نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 286/3، ح: 1148]

فائدہ: مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ) فرماتے ہیں:
«أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .»
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔ [مسند الإمام أحمد: 459/19، ح: 12417، صحيح البخاري: 3976]

◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م: 449 ھ) فرماتے ہیں:
«وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.»
امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔ [شرح صحيح البخاري: 358/3]
↰ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔

◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م: 611 ھ) فرماتے ہیں:
«ان الموتي لا يسمعون بلا شك .» یقینا مردے نہیں سنتے۔ [فتح الباري لابن حجر: 235/3]

◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م: 435 ھ) فرماتے ہیں:
«لا يسمعون، كما قال تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ » [27-النمل:80]، « ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ » [35-فاطر:22]
مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ » (اے نبی!) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ نیز فرمایا: « ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ » (اے نبی!) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔ [شرح صحيح البخاري لابن بطال: 320/3]
↰ ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین!
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4026  
4026. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کے غزوات کا بیان ہے۔ پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ کفار کی لاشوں کو قلیب بدر میں پھینکوا رہے تھے تو آپ نے فرمایا: تمہارے رب نے تم سے (سزا کا) جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پا لیا ہے؟۔ راوی کہتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں، تم اس کو ان سے زیادہ سننے والےنہیں ہو۔ امام بخاری ؒ نے فرمایا کہ تمام قریش مہاجر جو بدر میں شریک تھے اور انہیں غنیمت سے حصہ ملا ان کی تعداد اکیاسی تھی۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا: ان کے حصے تقسیم کیے گئے اور وہ ایک سو تھے۔ والله أعلم [صحيح بخاري، حديث نمبر:4026]
حدیث حاشیہ:
طبرانی اور بزار نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ بدر کے دن مہاجرین کا شمار 77 آدمیوں کا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4026   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4026  
4026. حضرت ابن شہاب زہری سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ ﷺ کے غزوات کا بیان ہے۔ پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ کفار کی لاشوں کو قلیب بدر میں پھینکوا رہے تھے تو آپ نے فرمایا: تمہارے رب نے تم سے (سزا کا) جو وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے سچا پا لیا ہے؟۔ راوی کہتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ایسے لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کچھ میں ان سے کہہ رہا ہوں، تم اس کو ان سے زیادہ سننے والےنہیں ہو۔ امام بخاری ؒ نے فرمایا کہ تمام قریش مہاجر جو بدر میں شریک تھے اور انہیں غنیمت سے حصہ ملا ان کی تعداد اکیاسی تھی۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت زبیر ؓ نے فرمایا: ان کے حصے تقسیم کیے گئے اور وہ ایک سو تھے۔ والله أعلم [صحيح بخاري، حديث نمبر:4026]
حدیث حاشیہ:
قبل ازیں حضرت براء بن عازب ؓ سے بیان ہوا تھا کہ غزوہ بدر میں مہاجرین کی تعداد ساٹھ سے زائد تھی۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 3956)
لیکن یہ تعداد ان اصحاب کی ہے انھوں نے عملی طور پر غزوہ بدر میں حصہ لیا۔
کچھ لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے جاسوسی کے لیے بھیجا تھا اور کچھ حضرات مدینہ طیبہ میں امامت اور نگرانی کے لیے رہ گئے تھے۔
ان کو بھی حکمی طور پر شریک کیا گیا اور انھیں غنیمت سے حصہ دیا۔
اس اعتبار سے مال غنیمت کے سو حصے کیے البتہ عملی طور شرکائے بدر مہاجرین کی تعدادکیاسی (81)
تھی ممکن ہے کہ حضرت براء ؓ کی حدیث میں آزاد مہاجرین کا ذکر ہواور اس حدیث میں آزاد موالی اور غلام وغیرہ مراد ہوں۔
(فتح الباري: 406/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4026