صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
14. بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ:
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4031
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ، فَنَزَلَتْ: مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ سورة الحشر آية 5".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغات جلوا دیئے تھے اور ان کے درختوں کو کٹوا دیا تھا۔ یہ باغات مقام بویرہ میں تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله‏» جو درخت تم نے کاٹ دیئے ہیں یا جنہیں تم نے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے جڑوں پر کھڑے رہیں تو یہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2615   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4031  
4031. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنونضیر کے درخت جلائے اور کچھ کاٹ دیے جو بویرہ مقام میں تھے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: جو درخت تم نے کاٹے ہیں یا انہیں ان کے تنوں پر قائم رہنے دیا ہے یہ سب اللہ کے حکم ہی سے تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4031]
حدیث حاشیہ:

مدینے کے قریب بنونضیر کا ایک باغ تھا جسے بویرہ کہتے تھے۔
اس میں بہت سے کھجوروں کے درخت تھے جب مسلمانوں نے بنونضیر کامحاصرہ کرنا چاہاتو یہ درخت کام میں رکاوٹ بن رہے تھے، چنانچہ جو درخت رکاوٹ بن سکتے تھے انھیں کاٹ کر اور جہاں زیادہ گنجان تھے وہاں انھیں آگ لگا کر محاصرہ کرنے کے لیے راہ صاف کرلی گئی تو اس پرمخالفین نے ایک شور برپا کردیا کہ دیکھو مسلمان درختوں کو کاٹ کر فساد في الأرض کا ارتکاب کررہے ہیں، حالانکہ ان کا اصلاح في الأرض کا دعویٰ ہے۔
اس آیت میں ان کے پروپیگنڈے کا جواب دیا گیا ہے۔

چونکہ اس اجازت کا ذکر قرآن میں کہیں مذکورنہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی جسے وحی خفی کہا جاتا ہے، جو احادیث کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔

دوسرامسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرجنگی ضرورت کے لیے کوئی تخریبی کاروائی کرنی پڑے تو وہ فساد في الأرض کی تعریف میں نہیں آتی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4031