صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
14. بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ:
باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4036
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا نُورَثُ , مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ , إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ" , وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي.
اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس جائیداد میں سے خرچ ضرور ملتا رہے گا۔ اور اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کے ساتھ عمدہ معاملہ کرنا مجھے خود اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسن معاملت سے زیادہ عزیز ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 326  
´حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بے حد احتیاط کرنی چاہئے`
«. . . انها قالت: إن ازواج النبى صلى الله عليه وسلم حين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم اردن ان يبعثن عثمان بن عفان إلى ابى بكر الصديق فيسالنه ميراثهن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت لهن عائشة: اليس قد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نورث، ما تركنا فهو صدقة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یہ ارادہ کیا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت میں سے اپنا حصہ مانگیں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ن سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 326]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6730، ومسلم 1758/51، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ یہ حدیث ہماری وراثت نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 100، لقط اللآلي 26، اونظم المتناثر 272]
➋ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک صحیح حدیث کا علم سارے علماء کو ضرور بالضرور ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بعض علماء کو علم کے باوجود وہ حدیث یا دلیل اس وقت یاد نہ ہو پھر جب اس کی ضرورت پڑے یا کسی کے یاد دلانے سے یاد آ جائے۔
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت فرمایا: میرے علم کے مطابق میرے پاس صرف یہی مال ہے، ۱ دودھ دینے والی اونٹنی، ۲ تلواریں پالش کرنے والا غلام۔ جب میں فوت ہو جاؤں تو یہ (دونوں) عمر کے حوالے کر دینا۔ جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے کی گئیں تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر پر اللہ رحم کرے، انہوں نے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا ہے۔ [طبقات ابن سعد 192/3، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ حکمرانوں کو بیت المال اور امور حکومت میں بےحد احتیاط کرنی چاہئے تاکہ موت کے بعد ہونے والے مواخذے سے بچ جائیں۔ ہر آدمی کو روز محشر اس کا نامہ اعمال تھما دیا جائے گا جس میں ہر چھوٹا بڑا عمل تفصیل سے درج ہو گا۔
➍ شیعہ اسماء الرجال کی رو سے ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوعبدالله (جعفر بن محمد الصادق) رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
«وإن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ منه أخذ بحظ وافر.» اور بےشک انبیاء کے وارث علماء ہیں، بےشک نبیوں کی وراثت درہم اور دینار نہیں ہوتی لیکن وہ علم کی وراثت چھوڑتے ہیں، جس نے اسے لے لیا تو اس نے بڑاحصہ لے لیا۔ [الاصول من الكافي للكليني ج 34 باب ثواب العالم والمتعلم ح 1، وسنده صحيح عندالشيعة]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 44   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2968  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (کسی کو) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2968]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں کسی کی کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔
اور کوئی حکمران کسی کی خاطر بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام تبدیل نہیں کرسکتا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ سن کر مکمل طور پر مطمئین ہوگئے۔
ان کی طرف سے عدم اطمینان کا گمان بھی ان کی شان میں گستاخی ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد جب ان اموال کا انتظام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد ان کی اولاد کو تفویض ہوا تو انہوں نے بھی بعینہ اسی طرح اس کا انتظام اور خرچ کیا۔
جس طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ عرصہ تک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرتے رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2968   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4036  
4036. حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا تھا: ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد ﷺ کو اس جائیداد سے خرچہ ضرور ملتا رہے گا۔ اللہ کی قسم! میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قرابت خود اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے کہ ان سے اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4036]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر ؓ نے ایک طرف فرمان رسول اللہ ﷺ کا احترام باقی رکھا تو دوسری طرف حضرات اہل بیت کے بارے میں صاف فرما دیا کہ ان کا احترام ان کی خدمت ان کے ساتھ حسن برتاؤ مجھ کو خود اپنے عزیزوں کے ساتھ حسن برتاؤ سے زیادہ عزیز ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کی دل جوئی کرنا ان کا اہم ترین مقصد تھا اور تاحیات آپ نے اس کو عملی جامہ پہنایا اور اس حال میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔
اللہ تعالی سب کو قیامت کے دن فردوس بریں میں جمع کرے گا اور سب ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ﴾ (الأعراف: 43)
کے مصداق ہوں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4036   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4036  
4036. حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا تھا: ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، البتہ آل محمد ﷺ کو اس جائیداد سے خرچہ ضرور ملتا رہے گا۔ اللہ کی قسم! میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قرابت خود اپنی قرابت سے زیادہ محبوب ہے کہ ان سے اچھا برتاؤ اور حسن سلوک کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4036]
حدیث حاشیہ:

ان تمام احادیث میں اموال بنونضیر کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو بطور فے عطا فرمائے تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر فرمایا ہے۔

دراصل بنونضیرنے رسول اللہ ﷺ کو ایک گھناؤنی سازش کے تحت مارڈالنے کا منصوبہ بنایاتھا۔
آپ ایک کام کے لیے ان کے پاس گئے اور دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا:
کون ہے جو چھت پر چڑھ کر اوپر سے چکی کا پاٹ گرائے اور آپ کو کچل دے؟ ایک بدبخت یہودی عمرو بن جحاش بولا:
میں یہ کام کروں گا، لیکن رسول اللہ ﷺ کو بروقت اطلاع ہوگئی۔
آپ وہاں سے واپس آگئے اور آتے ہی انھیں پیغام بھیج دیا کہ تم دس دن کے اندر اندر یہاں سے نکل جاؤ۔
جو سامان تم اپنے ساتھ لے جاسکتے ہو تمھیں اس کی اجازت ہے۔
دس دن کے بعد جوشخص نظر آیا قتل کردیا جائے گا۔
آپ کے اس پیغام سے وہ اس قدر دہشت زدہ ہوئے کہ اپنا گھر بارچھوڑ کر وہاں سے نکل جانے کی تیاریاں کرنے لگے اور اپنے مکانوں کی چھتیں اکھاڑ اکھاڑ کر ان کی لکڑیاں اپنے اونٹوں پر لادنے لگے۔
وہ خود ہی اپنے گھروں کو مسمار کررہے تھے اور مسلمان بھی اپنی ضروریات کے مطابق ان کے گھروں کو مسمار کررہے تھے۔
قرآن کریم میں ہے:
وہ یقین کر بیٹھے تھے کہ ان کے قلعے انھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے مگر اللہ نے انھیں ایسے رخ سے آلیا جس کا انھیں وہم خیال بھی نہ تھا۔
اور ان کے دلوں میں ایسارعب ڈال دیا کہ وہ خود ہی اپنے گھروں کو برباد کرنے لگے اور مسلمانوں کے ہاتھوں بھی کروانے لگے، اہل بصیرت! عبرت حاصل کرو۔
(الحشر: 2)
ان کے سردار حی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے مدینے سے نکل کر خیبر کا رخ کیا اور کچھ شام کی طرف چلے گئے۔
بہرحال یہود بنونضیر کا ذکر مقصود ہے۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اموال تین طرح کے تھے۔
۔
جو آپ کو ہبہ کیے گئے تھے۔
۔
اموال بنو نضیر جو ان کے جلاوطن ہونے کے بعد آپ کو ان کا حقدار بنایا گیا تھا۔
۔
خیبر اورفدک وغیرہ سے بطور خمس آپ کو ملاتھا۔
یہ سب آپ کی ملکیت تھے اور آپ ان سے اہل وعیال کے اخراجات پورے کرتے اور مسلمانوں کی ضرورتوں پر خرچ کرتےتھے۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ان کی ملکیت ختم ہوگئی اور وہ تمام اموال صدقہ قرارپائے جیسا کہ ان احادیث میں ان کا ذکر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4036