صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
15. بَابُ قَتْلُ كَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ:
باب: کعب بن اشرف یہودی کے قتل کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4037
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ , فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ:" قُلْ" , فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ سَأَلَنَا صَدَقَةً , وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ، قَالَ: وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَلَا نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ , وَقَدْ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ , وحَدَّثَنَا عَمْرٌو غَيْرَ مَرَّةٍ فَلَمْ يَذْكُرْ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ: فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ:" أُرَى فِيهِ وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ"، فَقَالَ: نَعَمِ ارْهَنُونِي، قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ تُرِيدُ؟ قَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ؟ فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ , هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ، قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلَاحَ فَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ فَجَاءَهُ لَيْلًا وَمَعَهُ أَبُو نَائِلَةَ وَهُوَ أَخُو كَعْبٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْحِصْنِ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَتْ لَهُ: امْرَأَتُهُ أَيْنَ تَخْرُجُ هَذِهِ السَّاعَةَ، فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَأَخِي أَبُو نَائِلَةَ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو، قَالَتْ: أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ يَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ، قَالَ: إِنَّمَا هُوَ أَخِي مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِيعِي أَبُو نَائِلَةَ إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَيْلٍ لَأَجَابَ، قَالَ: وَيُدْخِلُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مَعَهُ رَجُلَيْنِ، قِيلَ لِسُفْيَانَ: سَمَّاهُمْ عَمْرٌو، قَالَ: سَمَّى بَعْضَهُمْ، قَالَ عَمْرٌو: جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو أَبُو عَبْسِ بْنُ جَبْرٍ , وَالْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ , وَعَبَّادُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ عَمْرٌو: جَاءَ مَعَهُ بِرَجُلَيْنِ، فَقَالَ: إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّي قَائِلٌ بِشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوهُ، وَقَالَ مَرَّةً: ثُمَّ أُشِمُّكُمْ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ مُتَوَشِّحًا وَهُوَ يَنْفَحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رِيحًا أَيْ أَطْيَبَ، وَقَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو، قَالَ: عِنْدِي أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ وَأَكْمَلُ الْعَرَبِ، قَالَ عَمْرٌو، فَقَالَ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ رَأْسَكَ، قَالَ: نَعَمْ فَشَمَّهُ، ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَتَأْذَنُ لِي، قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ، قَالَ: دُونَكُمْ فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے کہا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے۔ اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا، پھر آپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا، یہ شخص (اشارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے۔ اس لیے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں۔ اس پر کعب نے کہا، ابھی آگے دیکھنا، خدا کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے۔ اس لیے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے، انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں۔ اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کئی دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے۔ کعب بن اشرف نے کہا، ہاں، میرے پاس کچھ گروی رکھ دو۔ انہوں نے پوچھا، گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا، اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ اس نے کہا، پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا، ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں۔ کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر اسے رہن رکھ دیا گیا تھا، یہ تو بڑی بے غیرتی ہو گی۔ البتہ ہم تمہارے پاس اپنے «اللأمة» گروی رکھ سکتے ہیں۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے۔ ان کے ساتھ ابونائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر آنے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت (اتنی رات گئے) کہاں باہر جا رہے ہو؟ اس نے کہا، وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ اس کی بیوی نے اس سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابونائلہ ہیں۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لیے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا (راوی نے) ابوعبس بن جبر، حارث بن اوس اور عباد بن بشر نام بتائے تھے۔ عمرو نے بیان کیا کہ وہ اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لائے تھے اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا۔ جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا۔ عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا۔ آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا، آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ کعب اس پر بولا، میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ عمرو نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا، کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا، سونگھ سکتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا، کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی۔ پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ۔ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2768  
´دشمن کے پاس دھوکہ سے پہنچنا اور یہ ظاہر کرنا کہ وہ انہی میں سے ہے اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو کعب بن اشرف ۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے، یہ سن کر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کہہ سکتے ہو، پھر انہوں نے کعب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2768]
فوائد ومسائل:

کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔
وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔
اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔
اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔
اور عہد شکنی بھی کی۔


دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔
وقتی طور پر جائز ہے۔
اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2768   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4037  
4037. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت ہے۔ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4037]
حدیث حاشیہ:
کعب بن اشرف کا کام تمام کرنے والے گروہ کے سردار حضرت محمد بن مسلمہ ؓ تھے۔
انہوں نے آنحضرت ﷺ سے وعدہ تو کرلیا مگر کئی دن تک متفکر رہے۔
پھر ابو نائلہ کے پاس آئے جو کعب کارضاعی بھائی تھا اور عباد بن بشر اور حارث بن اوس۔
ابو عبس بن جبر کو بھی مشورہ میں شریک کیا اور یہ سب مل کر آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجئے کہ ہم جو مناسب سمجھیں کعب سے ویسی باتیں کریں۔
آپ نے ان کو بطور مصلحت اجازت مرحمت فرمائی اور رات کے وقت جب یہ لوگ مدینہ سے چلے تو آنحضرت ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔
چاندنی رات تھی۔
آپ نے فرمایا جاؤ اللہ تمہاری مدد کرے۔
کعب بن اشرف مدینہ کا بہت بڑا متعصب یہودی تھا اور بڑا مال دار آدمی تھا۔
اسلام سے اسے سخت نفرت اور عداوت تھی۔
قریش کو مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے ابھارتا تھا اور ہمیشہ اس ٹوہ میں لگا رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح دھوکے سے آنحضرت ﷺ کو قتل کرا دے۔
فتح الباری میں ایک دعوت کا ذکر ہے جس میں اس ظالم نے اس غرض فاسد کے تحت آنحضرت ﷺ کو مدعو کیا تھا مگر حضرت جبرئیل ؑ، نے اس کی نیت بد سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ کردیا اور آپ بال بال بچ گئے۔
اس کی ان جملہ حرکات بد کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے اس کو ختم کرنے کے لیے صحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر فرمایا جس پر محمد بن مسلمہ انصاری ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔
کعب بن اشرف محمد بن مسلمہ کا ماموں بھی ہوتا تھا۔
مگر اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا رشتہ دنیاوی سب رشتوں سے بلند وبالا تھا۔
بہر حل اللہ تعالی نے اس ظالم کو بایں طور ختم کرایا جس سے فتنوں کا دروازہ بند ہوکر امن قائم ہوگیا اور بہت سے لوگ جنگ کی صورت پیش آنے اور قتل ہونے سے بچ گئے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ بن مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ كَعْبَ بْنَ الْأَشْرَفِ كَانَ شَاعِرًا وَكَانَ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَرِّضُ عَلَيْهِ كُفَّارَ قُرَيْشٌ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَأَهْلُهَا أَخْلَاطٌ فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتِصْلَاحَهُمْ وَكَانَ الْيَهُودُ وَالْمُشْرِكُونَ يُؤْذُونَ الْمُسْلِمِينَ أَشَدَّ الْأَذَى فَأَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ وَالْمُسْلِمِينَ بِالصَّبْرِ فَلَمَّا أَبَى كَعْبٌ أَنْ يَنْزِعَ عَنْ أَذَاهُ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ أَنْ يَبْعَثَ رهطا ليقتلوه وَذكر بن سَعْدٍ أَنَّ قَتْلَهُ كَانَ فِي رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنَ السَّنَةِ الثَّالِثَةِ(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ کعب بن اشرف شاعر تھا جو شعروں میں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کرتا اور کفار قریش کو آپ کے اوپر حملہ کرنے کی ترغیب دلاتا۔
آنحضرت ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے وہاں کے باشندے آپس میں خلط ملط تھے۔
آنحضرتﷺنے ان کی اصلاح وسدھار کا بیڑا اٹھایا۔
یہودی اور مشرکین آنحضرت ﷺ کو سخت ترین ایذائیں پہنچانے کے درپے رہتے۔
پس اللہ نے اپنے رسول ﷺ اور مسلمانوں کو صبر کا حکم فرمایا۔
جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حدسے زیاد ہ بڑھنے لگیں اور ایذا رسانی سے باز نہ آیا تب آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ ؓ کو حکم فرمایا کہ ایک جماعت کو بھیجیں جو اس کا خاتمہ کرے۔
ابن سعد نے کہا کہ کعب بن اشرف کا قتل3ھ میں ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4037   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4037  
4037. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کعب بن اشرف کی کون خبر لیتا ہے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو بہت تکلیف دی ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہوئے اور کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ میں اس کا کام تمام کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کی: پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں جو مناسب خیال کروں، اس سے کہوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت ہے۔ چنانچہ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے: یہ شخص ہم سے صدقہ مانگتا ہے اور اس نے ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے، لہذا میں تجھ سے کچھ قرض لینے آیا ہوں۔ کعب بولا: اللہ کی قسم! ابھی تو تم اس سے اور بھی تکلیف اٹھاؤ گے۔ حضرت محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: اب تو ہم نے اس کی اتباع کر لی ہے، ہم اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، جبکہ تک دیکھ نہ لیں کہ آگے کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4037]
حدیث حاشیہ:

کعب کا باپ اشرف بنونہیان قبیلے سے تھا۔
دورجاہلیت میں اس نے کسی آدمی کو قتل کردیا، پھر وہاں سے بھاگ کر مدینہ طیبہ میں آگیا اور بنو نضیر سے عہدوپیمان کرلیا، پھر اس نے ابوالحقیق کی لڑکی عقیلہ سے شادی کی تو اس سے کعب پیدا ہوا۔
اس کے قتل کرنے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
الف۔
غزوہ بدر کے بعد اس نے قریش کو جگ پر ابھارا اورہرقسم کے مال واسباب کے ساتھ تعاون کایقین دلایا بلکہ ساٹھ آدمیوں کا وفد لے کے مکے گیا اور انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا۔
اس کے علاوہ یہ شاعر بھی تھا اپنے اشعار میں اسلام اور اہل اسلام کی توہین کرتا اور مسلم خواتین کے متعلق نازیبا اشعار کہتا تھا۔
ب۔
اس نے رسول ا للہ ﷺ کی دعوت کی اور پروگرام اس طرح طے پایا کہ جب آپ مکان میں تشریف فرماہوں تو اچانک آپ پرحملہ کرکے آپ کو شہید کردیا جائے لیکن حضرت جبرئیل ؑ نے آپ کو اس سے مطلع کردیا اور آپ کو اپنے پروں میں چھپا کر لے آئے تو واپس آکر آپ نے فرمایا:
اب اس کی ایذارسانی انتہا کو پہنچ چکی ہے،اسے قتل کرنا چاہیے۔
چنانچہ اسے کیفر کردارتک پہنچادیا گیا۔
(فتح الباري: 421/7،422)

کعب بن اشرف یہودی کے قتل میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حصہ لیا:
محمد بن مسلمہ، ابوعبس بن جبیر، حارث بن اوس، ابونائلہ اور عباد بن بشر رضوان اللہ عنھم اجمعین۔
خود رسول اللہ ﷺ بقیع تک ان کے ساتھ آئے۔
پھر اللہ کا نام لے کر انھیں روانہ کیا اور دعا فرمائی:
اے اللہ!ان کی مدد فرما۔
یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جب اسے قتل کرکے واپس آئے تو بقیع کے پاس پہنچ کر انھوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ کر اس کا سرآپ کے آگے پھینک دیا۔
آپ نے اس کے قتل ہوجانے پر اللہ کا شکر اداکیا۔
(فتح الباري: 424/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4037