صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
18. بَابُ: {إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ} :
باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 4052
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , أَخْبَرَنَا عَمْرٌو , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ نَكَحْتَ يَا جَابِرُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ:" مَاذَا أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا" , قُلْتُ: لَا بَلْ ثَيِّبًا , قَالَ:" فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُكَ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبِي قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ تِسْعَ بَنَاتٍ كُنَّ لِي تِسْعَ أَخَوَاتٍ , فَكَرِهْتُ أَنْ أَجْمَعَ إِلَيْهِنَّ جَارِيَةً خَرْقَاءَ مِثْلَهُنَّ , وَلَكِنْ امْرَأَةً تَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ , قَالَ:" أَصَبْتَ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا جابر! کیا نکاح کر لیا؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا؟ جو تمہارے ساتھ کھیلا کرتی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والد احد کی لڑائی میں شہید ہو گئے۔ نو لڑکیاں چھوڑیں۔ پس میری نو بہنیں موجود ہیں۔ اسی لیے میں نے مناسب نہیں خیال کیا کہ انہیں جیسی نا تجربہ کار لڑکی ان کے پاس لا کر بٹھا دوں، بلکہ ایک ایسی عورت لاؤں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی صفائی و ستھرائی کا خیال رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4052  
4052. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4052]
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ رسول کریم ﷺ کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔
قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کی جابر ؓ پر نظر عنایت ہے۔
اگر جابر ؓ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت ﷺ خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے۔
اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4052   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4052  
4052. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: اے جابر! تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے کہا: بیوہ سے۔ آپ نے فرمایا: بہتر تھا کہ کنواری سے شادی کرتے تاکہ وہ تم سے ہنستی کھیلتی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں، وہ میری نو بہنیں ہیں۔ مجھے یہ پسند نہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور اان جیسی ناتجربہ کار لڑکی اپنے گھر لے آؤں، لہذا میں نے شادی کے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا ہے جو ان کی کنگھی پٹی کرے گی اور ان کی نگہداشت کا فریضہ بھی ادا کرتی رہے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے بالکل ٹھیک کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4052]
حدیث حاشیہ:

عنوان سابق ایک اضافی فائدے کے لیے تھا۔
بنیادی عنوان وہی ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔
اس میں غزوہ احد کے واقعات بیان کرنا مقصود ہے۔

مذکورہ حدیث میں بھی حضرت جابر ؓ کے والد گرامی حضرت جابر عبد اللہ ؓ کی شہادت کا بیان ہے غزوہ احد میں ہوئی۔
جب وہ شہید ہوئے تو اس وقت حضرت جابر ؓ ان کے اکلوتے بیٹے تھے۔
سب کاروبار ان کےسپرد ہوا۔
جب نو بہنوں کا بارگراں ناتواں کندھوں پر پڑا تو بہت پریشان رہتے تھے۔
والد کے ذمے قرض بھی بہت تھا جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر ہے۔
ایسے حالات میں آپ نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی بہنوں کو سنبھالے اورامور خانہ داری کی نگہداشت کرے۔
واقعی ایسے حالات میں بیوہ اور تجربہ کار عورت ایک کنواری لڑکی سے بہتر ہوتی ہے، پھر خود رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کی تصویب فرمائی جیسا کہ حدیث کے آخر میں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4052