صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
27. بَابُ مَنْ قُتِلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَ أُحُدٍ:
باب: جن مسلمانوں نے غزوہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 4080
وَقَالَ أَبُو الْوَلِيدِ عَنْ شُعْبَةَ عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا قَالَ لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَبْكِيهِ أَوْ مَا تَبْكِيهِ، مَا زَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ» .
اور ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن المنکدر نے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے تو میں رونے لگا اور باربار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا۔ صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں روکا۔ (فاطمہ بنت عمر رضی اللہ عنہا عبداللہ کی بہن بھی رونے لگیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ روؤ مت۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لا تبكيه» فرمایا، یا «ما تبكيه» ۔ راوی کو شک ہو گیا) فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا گیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4080  
4080. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہو گئے تو میں رونے لگا اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانا چاہا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن نبی ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اور نبی ﷺ نے (آپ کی پھوپھی سے) فرمایا: اس پر مت رو، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے، یہاں تک انہیں اٹھا لیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4080]
حدیث حاشیہ:
جنگ احد کے شہیدوں کے فضائل ومناقب کا کیا کہنا ہے۔
یہ اسلام کے وہ نامور فرزند ہیں جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کو پروان چڑھایا۔
اسلامی تاریخ قیامت تک ان پر نازاں رہے گی۔
ان میں سے دو دو کو ملا کر ایک ایک قبر میں دفن کیا گیا۔
حاجت نہیں ہے تیرے شہیدوں کو غسل کی ان کو بغیر کفن دفن کیا گیا تاکہ قیامت کے دن یہ محبت الہی کے کشتگاں اسی حالت میں عدالت عالیہ میں حاضر ہوں۔
سچ ہے:
بناکر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔
میں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ مجھ کو عمر عزیز میں تین مرتبہ ان شہداء کے گنج شہیداں پر دعا ئے مسنونہ پڑھنے کے لیے حاضری کا موقع ملا۔
ہر حاضری پر واقعات ماضی یاد کرکے دل بھر آیا اور آج بھی جبکہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہے۔
اللہ پاک قیامت کے دن ان قطروں کو گناہوں کی نار دوزخ بجھانے کے لیے دریاؤں کا درجہ عطا فرمائے۔
وما ذالك علی اللہ بعزیز۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4080   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4080  
4080. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہو گئے تو میں رونے لگا اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانا چاہا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن نبی ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اور نبی ﷺ نے (آپ کی پھوپھی سے) فرمایا: اس پر مت رو، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے، یہاں تک انہیں اٹھا لیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4080]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے انھیں بہت عظمت سے نوازا گیا ہے۔
ان کی شہادت پررونے دھونے یا افسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔

حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کو رونے سے منع نہیں فرمایا۔
لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ بنت عمرو ؓ کو رونے سے منع فرمایا۔
صحیح مسلم کی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ رونے لگی تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسے رونا نہیں چاہیے۔
(صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 6355(2471)
وفتح الباري: 470/7)

بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں میں بھی اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1244)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے چہرے سے کفن ہٹانا جائز ہے بشرط یہ کہ فائدہ ہو بصورت دیگر خلاف اولیٰ ہے کیونکہ ایسا کرنے سے غم وحزن میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے خلاف اولیٰ ہونے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا منع کرنا بھی دلالت کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اس نہی پر انکار نہ کرنا بھی اس کی دلیل ہے کہ بلاوجہ میت کا چہرہ نہ کھولا جائے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4080