صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
29. بَابُ غَزْوَةُ الرَّجِيعِ وَرِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبِئْرِ مَعُونَةَ:
باب: غزوہ رجیع کا بیان اور رعل و ذکوان اور بئرمعونہ کے غزوہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4093
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فِي الْخُرُوجِ حِينَ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْأَذَى , فَقَالَ لَهُ: أَقِمْ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَطْمَعُ أَنْ يُؤْذَنَ لَكَ , فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنِّي لَأَرْجُو ذَلِكَ" , قَالَتْ: فَانْتَظَرَهُ أَبُو بَكْرٍ , فَأَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ظُهْرًا فَنَادَاهُ , فَقَالَ:" أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ" , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَايَ , فَقَالَ:" أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ" , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ الصُّحْبَةَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصُّحْبَةَ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي نَاقَتَانِ قَدْ كُنْتُ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ , فَأَعْطَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَاهُمَا وَهِيَ الْجَدْعَاءُ , فَرَكِبَا فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا الْغَارَ وَهُوَ بِثَوْرٍ فَتَوَارَيَا فِيهِ , فَكَانَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ غُلَامًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ أَخُو عَائِشَةَ لِأُمِّهَا , وَكَانَتْ لِأَبِي بَكْرٍ مِنْحَةٌ فَكَانَ يَرُوحُ بِهَا وَيَغْدُو عَلَيْهِمْ وَيُصْبِحُ فَيَدَّلِجُ إِلَيْهِمَا , ثُمَّ يَسْرَحُ فَلَا يَفْطُنُ بِهِ أَحَدٌ مِنَ الرِّعَاءِ , فَلَمَّا خَرَجَ خَرَجَ مَعَهُمَا يُعْقِبَانِهِ حَتَّى قَدِمَا الْمَدِينَةَ فَقُتِلَ عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ يَوْمَ بِئْرِ مَعُونَةَ. وَعَنْ أَبِي أُسَامَةَ , قَالَ: قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ: فَأَخْبَرَنِي أَبِي , قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الَّذِينَ بِبِئْرِ مَعُونَةَ وَأُسِرَ عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ قَالَ لَهُ عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ: مَنْ هَذَا؟ فَأَشَارَ إِلَى قَتِيلٍ , فَقَالَ لَهُ: عَمْرُو بْنُ أُمَيَّةَ هَذَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ , فَقَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ مَا قُتِلَ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ , حَتَّى إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْأَرْضِ , ثُمَّ وُضِعَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرُهُمْ فَنَعَاهُمْ , فَقَالَ:" إِنَّ أَصْحَابَكُمْ قَدْ أُصِيبُوا وَإِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا رَبَّهُمْ , فَقَالُوا رَبَّنَا أَخْبِرْ عَنَّا إِخْوَانَنَا بِمَا رَضِينَا عَنْكَ وَرَضِيتَ عَنَّا" , فَأَخْبَرَهُمْ عَنْهُمْ وَأُصِيبَ يَوْمَئِذٍ فِيهِمْ عُرْوَةُ بْنُ أَسْماءَ بْنِ الصَّلْتِ فَسُمِّيَ عُرْوَةُ بِهِ وَمُنْذِرُ بْنُ عَمْرٍو سُمِّيَ بِهِ مُنْذِرًا.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب مکہ میں مشرک لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سخت تکلیف دینے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی یہیں ٹھہرے رہو۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ بھی (اللہ تعالیٰ سے) اپنے لیے ہجرت کی اجازت کے امیدوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مجھے اس کی امید ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ انتظار کرنے لگے۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ظہر کے وقت (ہمارے گھر) تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارا اور فرمایا کہ تخلیہ کر لو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ صرف میری دونوں لڑکیاں یہاں موجود ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی سعادت حاصل ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم بھی میرے ساتھ چلو گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت ہی کی نیت سے تیار کر رکھا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک اونٹنی جس کا نام الجدعا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ دونوں بزرگ سوار ہو کر روانہ ہوئے اور یہ غار ثور پہاڑی کا تھا اس میں جا کر دونوں پوشیدہ ہو گئے۔ عامر بن فہیرہ جو عبداللہ بن طفیل بن سنجرہ، عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدہ کی طرف سے بھائی تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک دودھ دینے والی اونٹنی تھی تو عامر بن فہیرہ صبح و شام (عام مویشیوں کے ساتھ) اسے چرانے لے جاتے اور رات کے آخری حصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے۔ (غار ثور میں ان حضرات کی خوراک اسی کا دودھ تھی) اور پھر اسے چرانے کے لیے لے کر روانہ ہو جاتے۔ اس طرح کوئی چرواہا اس پر آگاہ نہ ہو سکا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ غار سے نکل کر روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے عامر بن فہیرہ بھی پہنچے تھے۔ آخر دونوں حضرات مدینہ پہنچ گئے۔ بئرمعونہ کے حادثہ میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے تھے۔ ابواسامہ سے روایت ہے، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ جب بئرمعونہ کے حادثہ میں قاری صحابہ شہید کئے گئے اور عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ قید کئے گئے تو عامر بن طفیل نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے ایک لاش کی طرف اشارہ کیا۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ یہ عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر عامر بن طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ شہید ہو جانے کے بعد ان کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔ میں نے اوپر نظر اٹھائی تو لاش آسمان و زمین کے درمیان لٹک رہی تھی۔ پھر وہ زمین پر رکھ دی گئی۔ ان شہداء کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نے باذن خدا بتا دیا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کی خبر صحابہ کو دی اور فرمایا کہ تمہارے ساتھی شہید کر دیئے گئے ہیں اور شہادت کے بعد انہوں نے اپنے رب کے حضور میں عرض کیا کہ اے ہمارے رب! ہمارے (مسلمان) بھائیوں کو اس کی اطلاع دیدے کہ ہم تیرے پاس پہنچ کر کس طرح خوش ہیں اور تو بھی ہم سے راضی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید کے ذریعہ) مسلمانوں کو اس کی اطلاع دے دی۔ اسی حادثہ میں عروہ بن اسماء بن صلت رضی اللہ عنہما بھی شہید ہوئے تھے (پھر زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے جب پیدا ہوئے) تو ان کا نام عروہ، انہیں عروہ ابن اسماء رضی اللہ عنہما کے نام پر رکھا گیا۔ منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ اس حادثہ میں شہید ہوئے تھے۔ (اور زبیر رضی اللہ عنہ کے دوسرے صاحب زادے کا نام) منذر انہیں کے نام پر رکھا گیا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4093  
4093. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب مکہ مکرمہ میں ابوبکر ؓ پر کفار کی سختیاں زیادہ ہو گئیں تو انہوں نے نبی ﷺ سے ہجرت کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘ابھی ٹھہرے رہو۔ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو بھی اجازت ملنے کی امید ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں بھی ہجرت کی اجازت کا امیدوار ہوں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ پھر حضرت ابوبکر ؓ انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک دن رسول اللہ ﷺ ظہر کے وقت تشریف لائے۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو پکارا اور فرمایا: جو اہل خانہ آپ کے پاس ہیں انہیں ایک طرف کر دو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اور کوئی نہیں صرف دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا مجھے رفاقت نصیب ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم میرے ساتھ چلو گے۔ عرض کی: اللہ کے رسول! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4093]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ہجرت نبوی کا بیان ہے۔
شروع میں آپ کا غار ثور میں قیام کرنا مصلحت الہی کے تحت تھا۔
اللہ تعالی نے آپ کی وہاں بھی کامل حفاظت فرمائی اور وہاں رزق بھی پہنچایا۔
اس موقع پر حضرت عامر بن فہیرہ ؓ نے ہر دو بزرگوں کی اہم خدمات انجام دیں کہ غار میں اونٹنی کے تازہ تازہ دودھ سے ہر دو بزرگوں کو سیراب رکھا۔
حقیقی جانثاری اسی کا نام ہے۔
یہی عامر بن فہیرہ ؓ ہیں جو ستر قاریوں کے قافلہ میں شہید کئے گئے۔
اللہ تعالی نے ان کی لاش کا یہ اکرام کیا کہ وہ آسمان کی طرف اٹھائی گئی پھر زمین پر رکھ دی گئی۔
شہدائے کرام کے یہ مراتب ہیں جو حقیقی شہداء کو ملتے ہیں۔
سچ ہے ﴿وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ﴾ (البقرة: 154)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4093   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4093  
4093. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب مکہ مکرمہ میں ابوبکر ؓ پر کفار کی سختیاں زیادہ ہو گئیں تو انہوں نے نبی ﷺ سے ہجرت کی اجازت مانگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’‘ابھی ٹھہرے رہو۔ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو بھی اجازت ملنے کی امید ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں بھی ہجرت کی اجازت کا امیدوار ہوں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ پھر حضرت ابوبکر ؓ انتظار کرنے لگے۔ آخر ایک دن رسول اللہ ﷺ ظہر کے وقت تشریف لائے۔ آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو پکارا اور فرمایا: جو اہل خانہ آپ کے پاس ہیں انہیں ایک طرف کر دو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا: اور کوئی نہیں صرف دو بیٹیاں ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں علم ہے کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا مجھے رفاقت نصیب ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم میرے ساتھ چلو گے۔ عرض کی: اللہ کے رسول! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں اور میں نے انہیں ہجرت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4093]
حدیث حاشیہ:

عبد اللہ بن طفیل ؓ حضرت عائشہ ؓ کا مادری بھائی اس بنا پر تھا کہ حضرت ام رومان ؓ پہلے ان کے باپ کے نکاح میں تھیں۔
باپ بیٹا دونوں مکہ مکرمہ میں آئے اور ابو بکر ؓ کے حلیف بن گئے۔
جب طفیل فوت ہوا تو حضرت ابو بکرؓ نے اُم رومان ؓ سے شادی کر لی اور اس سے حضرت عبدالرحمٰن ؓ اور حضرت عائشہ ؓ پیدا ہوئے۔
اس بنا پر عبد اللہ بن طفیل ؓ ان کے ماں کی طرف سے بھائی ہیں۔

حضرت عامر بن فہیرہ ؓ شہید ہوئے تھے اس لیے ہجرت کا ذکر ان کے تعارف کے طور پر ہوا ہے کہ انھوں نے سفر ہجرت کے دوران میں دوبزرگوں کی تمام خدمات سرانجام دیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش کا یہ اکرام فرمایا کہ وہ آسمان کی طرف اٹھالی گئی۔
پھر زمین پر رکھ دی گئی شہدائے کرام کے یہی مراتب ہیں جو صرف انھی کو نصیب ہوتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہو جائیں انھیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔
(البقرہ: 154/2)
حضرت عامر بن فہیرہ ؓ کی لاش کو آسمان کی طرف اٹھانے اور زمین پر رکھنے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ ان کی تعظیم و توقیر مقصود تھی۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس سے کافر بہت مرعوب ہوئے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیک فال کے طور پر اپنی اولاد کے نام نیک لوگوں کے نام کے مطابق رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ بڑے ہو کر وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں، جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام ؓ نے ایسا کیا تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4093