Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
5. باب المسح على الخفين
موزوں پر مسح کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 58
وعن ثوبان رضي الله عنه قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم سرية فأمرهم أن يمسحوا على العصائب،‏‏‏‏ يعني العمائم والتساخين،‏‏‏‏ يعني الخفاف. رواه أحمد وأبو داود،‏‏‏‏ وصححه الحاكم.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (یعنی چھوٹا لشکر) روانہ فرمایا اور انہیں پگڑیوں اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔
اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب المسح علي العمامة، حديث: 146، وأحمد: 5 / 277، والحاكم في المستدرك:1 / 169.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 58 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 58  
لغوی تشریح:
«سَرِيَّةٌ» سین کے فتحہ را کے کسرہ اور یا کی تشدید کے ساتھ ہے۔ چھوٹا سا لشکر جسے دشمن کے علاقے میں بھیجا جاتا ہے۔ اہل مغازی نے سریہ اس کو قرار دیا ہے جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس شامل نہ ہوئے ہوں۔ اور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمولیت بصورت قیادت فرمائی، اسے علمائے مغازی کی اصطلاح میں غزوہ کہتے ہیں۔ اور اس مقام پر اصطلاحی معنی مراد ہیں۔
«عَصَائِب» «عِصَابَةٌ» کی جمع ہے۔
«عَمَائِم» «عِمَامَةٌ» کی جمع ہے۔ «عصابة» کے معنی کسی راوی نے پگڑی کے کیے ہیں۔ وجہ تسمیہ یہ ہے کہ «عصب» کے معنی باندھنے کے ہیں اور اس کے ساتھ بھی سر کو باندھا جاتا ہے۔ «عصابة» دراصل پٹیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اس کے حقیقی معنی نہیں بلکہ مرادی معنی ہیں۔
«تَسَاخِينَ» یہ «تَسْخَانٌ» کی جمع ہے اور مفرد کی تا مفتوح ہے۔ اس کے معنی کسی راوی نے موزے کے کیے ہیں۔ ابن ارسلان نے کہا: ہے کہ «اَلتَّسَاخِين» ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس سے پاؤں سردی سے بچ سکیں، خواہ وہ موزہ ہو یا جراب۔

فوائد و مسائل:
➊ پٹیوں سے مراد ایسی پٹیاں ہیں جو زخموں پر باندھی جاتی ہیں یا کسی کا بازو یا ٹانگ ٹوٹنے کی صورت میں لکڑی کی پھٹیاں رکھ کر باندھ دیتے ہیں۔ انہی کو «عصائب» کہا جاتا ہے۔
➋ جنگ کے لیے روانہ کرتے وقت اس قسم کا حکم دینا بظاہر تو یہی معنی رکھتا ہے کہ معرکہ آرائی کے دوران میں زخمی حضرات اعضائے وضو دھونے کی بجائے زخم کی پٹیوں ہی پر مسح کر لیا کریں۔
➌ ابوداود میں ہے کہ سریہ سے واپسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سردی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پگڑی اور موزوں پر مسح کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود، الطهارة، باب المسح على العمامة، حديث: 146]

راوی حدیث:
SR سیدنا ثوبان بن بُجْدُد بن جحدر رضی اللہ عنہ ER ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ ثوبان ثا پر فتحہ اور واؤ ساکن کے ساتھ ہے۔ بجدد میں با مضموم، جیم ساکن، دال اول مضموم اور دال ثانی ساکن ہے۔ اور جحدر میں جیم پر فتحہ، حا ساکن اور دال پر فتحہ ہے۔ یہ سراۃ کے باشندے تھے جو مکہ و مدینہ کے مابین ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حمیر قبیلے میں سے تھے۔ زندگی بھر حضر و سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے اور ہر طرح کی خدمت بجا لاتے رہے۔ ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید کر آزادی سے ہمکنار کیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد شام میں رہائش پذیر ہو گئے۔ شام سے پھر حمص کی طرف نقل مکانی کر گئے اور وہیں 54 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فتاویٰ صراط مستقیم  
´جرابوں پر مسح`
. . . ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) بھیجا تو اسے ٹھنڈ لگ گئی، جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (وضو کرتے وقت) عماموں (پگڑیوں) اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/ ح: 146]
فوائد و مسائل:
جرابوں اور موزوں پر مسح کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جہاں تک چمڑے کے موزوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ ان پر مسح کرناجائز ہے۔ جرابوں پر بھی بنیادی طور پر تمام ائمہ اور علماء کے نزدیک مسح کرناجائز ہے فرق اتنا ہے کہ بعض نے کچھ شرطیں لگائی ہیں کہ اگر وہ شرائط پوری ہوں تو پھر جرابوں پر مسح کرنا جائز ہو گا ورنہ نہیں۔ جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں بعض شرائط کا ذکر کیا ہے۔ حالانکہ جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان میں کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں۔
ذیل میں ہم وہ مرفوع احادیث پیش کرتے ہیں جن کے عموم یا خصوص سے جرابوں پر مسح ثابت ہوتا ہے۔
پہلی حدیث:
امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ
«بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فاصابهم البرد فلما قدمو على النبى صلى الله عليه وسلم شكوا اليه ما اصابهم من البرد فامرهم ان يمسحوا على العصائب والتساخين»
[سنن ابي داؤد 146، باب لمسح على العمامة]
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قافلہ بھیجا تو سرد موسم کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی جب وہ واپس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو سردی کی تکلیف کی شکایت آپ سے کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پگڑیوں اور «تساخين» پر مسح کرنے کا حکم دیا۔
عربی میں «تساخين» ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے پاؤں گرم رکھے جائیں ’ جس میں موزے اور جراب دونوں شامل ہیں۔

دوسری حدیث:
یہ حدیث امام احمد رحمہ الله نے اپنی مسند اور امام ترمذی رحمہ الله اور امام ابن ماجہ رحمہ الله نے اپنی اپنی سنن میں اس کی تخریج کی ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم توضاء و مسح على الجوربين والنعلين»
[ترمذي ج ۱ باب المسح على الجورب ص ۱۵]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
مذکورہ حدیث کی کتابوں کے «باب المسح على الجوربين» میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے:

تیسری حدیث:
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت امام ابن ماجہ رضی اللہ عنہ نے اپنی سنن میں بیان کی ہے۔
«ان رسول الله صلى الله عليه وسلم توضاء و مسح على الجوربين والنعلين»
[ابن ماجه ج۱ كتاب الطهارة باب ماجاء فى المسح على الجوربين والنعلين ص ۲۹۰۔ رقم الحديث ۵۶۰]
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور جرابوں اور موزوں پر مسح کیا۔
ان احادیث میں ایک تو واضح طور پر جرابوں کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرا ان کے ساتھ کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ الله میں سے ممتاز شخصیتوں سے جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔ جیسے عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابومسعود، ابن عباس، ابن عمر، بلال، ابوموسیٰ اشعری رضوان اللہ علیہم اجمیعن۔

اور تابعین میں قتادہ، ابن المسیب، عطاء، نخعی، ابن جبیر اور نافع رحمہم اللہ اجمیعن کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔

اس مسئلے میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی وہ وضاحت مفید ثابت ہو گی:
جو انہوں نے ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں فرمائی تھی۔ اس طالب علم نے اسکاٹ لینڈ سے درج ذیل سوال مولانا مرحوم کی خدمت میں ارسال کیا تھا۔
موزوں اور جرابوں پر مسح کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں۔ یہاں جاڑے کا موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننانا گزیر ہے۔ کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جا سکتا ہے؟ براہ کرم اپنی تحقیق احکام شریعت کی رو شنی میں تحریر فرمائیں۔
مولانا اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
جہاں تک چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے اس کے جواز پر قریب قریب تمام اہل سنت کا اتفاق ہے مگر سوتی اور اونی جرابوں کے بارے میں عموماًً ہمارے فقہاء نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ موٹی ہوں اور شفاف نہ ہوں کہ ان کے نیچے سے پاؤں کی جلد نظر آئے اور وہ کسی قسم کی بندش کے بغیر خود قائم رہ سکیں۔

میں نے اپنی امکانی حد تک یہ تلاش کرنے کی کوشش کی کہ ان شرائط کا ماخذ کیا ہے مگر سنت میں کوئی ایسی چیزنہ مل سکی۔ سنت سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا ہے۔ نسائی کے سوا کتب سنن میں اور مسند احمد میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔ ابوداؤد کا بیان ہے کہ حضرت علی، عبداللہ بن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، سہل بن سعد، اور عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔ نیز حضرت عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہ فعل مروی ہے بلکہ بیہقی نے ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم سے اور طحاوی نے اوس بن ابی اوس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف جوتوں پر مسح فرمایا ہے اس میں جرابوں کا ذکر نہیں اور یہی عمل حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ ان مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جراب اور صرف جوتے اور جرابیں پہنے ہوئے جوتے پر مسح کرنا بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا۔ ان روایات میں کہیں یہ نہیں ملتاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہا کی تجویز کردہ شرائط میں سے کوئی شرط بیان فرمائی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کسی جگہ ملتا ہے کہ جن جرابوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور مذکورہ بالا صحابہ رضی اللہ عنہم نے مسح فرمایا وہ کس قسم کی تھیں۔ اس لئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ فقہاء کی عائد کردہ ان شرائط کو ئی ماخذ نہیں ہے اور فقہاء چونکہ شارع نہیں ہیں اس لئے ان کی شرطون پر اگر کوئی عمل نہ کرے تو وہ گنہگار نہیں ہو سکتا۔

امام شافعی رحمہ الله اور امام احمد رحمہ الله کی رائے یہ ہے کہ جرابوں پر اس صورت میں آدمی مسح کر سکتا ہے کہ جب آدمی جوتے اوپر سے پہنے رہے۔ لیکن اوپر جن صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار نقل کئے گئے ان میں سے کسی نے بھی اس شرط کی پابندی نہیں کہ ہے۔

«مسح على الخفين» کے مسئلے پر غور کر کے میں نے جوکچھ سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ دراصل تیمم کی طرح ایک سہولت ہے جو اہل ایمان کو ایسی حالتوں کے لئے دی گئی ہے جبکہ وہ کسی صورت سے پاؤں ڈھانکنے رکھنے پر مجبور ہوں اور باربار پاؤں دھونا ان کے لئے موجب نقصان یا وجہ مشقت ہو۔ اس رعایت کی بنا پر اس مفروضے پر نہیں ہے کہ طہارت کے بعد موزے پہن لینے سے پاؤں نجاست سے محفوظ رہیں گے اس لئے ان کے دھونے کی ضرورت باقی نہ رہے گی بلکہ اس کی بنا اللہ کی رحمت ہے جو بندوں کو سہولت عطاکرنے کی مقتضی ہوئی۔ لہٰذا ہر وہ چیز جو سردی سے یا راستے کے گردوغبار سے بچنے کے لئے یا پاؤں کے کسی زخم کی حفاظت کے لئے آدمی پہنے اور جس کے باربار اتارنے اور پھر پہننے میں آدمی کو زحمت ہو۔ اس پر مسح کیا جا سکتا ہے خواہ وہ اونی جراب ہو یا سوتی، چمڑے کا جوتا ہو یاکر مچ کایا کوئی کپڑا ہی ہو جو پاؤں پر لپٹ کرباندھ لیاگیا ہو۔
[بحواله رسائل ومسائل جلد دوم ص ۲۵۸]

مولانا کی اس وضاحت کے بعد ان شرائط کی حیثیت معلوم ہو جاتی ہے جن کاسوال میں ذکر کیا گیا ہے۔ بعض لوگ ان مسائل میں خواہ مخواہ الجھتے ہیں، اور لوگوں پر سختی کرتے ہیں۔ حالانکہ جن کاموں میں اللہ نے رخصت دی ہے لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہئے۔
«هذا ما عندي والله أعلم بالصواب»
   اسلام کیو اے، حدیث/صفحہ نمبر: 13806   

  اردو فتاوىٰ  
´جرابوں پر مسح`
. . . ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (چھوٹا لشکر) بھیجا تو اسے ٹھنڈ لگ گئی، جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (وضو کرتے وقت) عماموں (پگڑیوں) اور موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/ ح: 146]
فوائد و مسائل:
اؤل:
احادیث مبارکہ میں موزوں پر مسح کرنا ثابت ہے۔
جبکہ جرابوں کو جمہور علمائے کرام نے موزوں کیساتھ منسلک کیا ہے۔
جراب اصل میں خلیل فراہیدی کے مطابق:
پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں۔ دیکھیں: [العين 6/113]
اسی طرح مواهب الجليل [813/1] میں ہے کہ:
موزے کی شکل میں کاٹن، سوت یا کسی اور چیز سے بنے ہوئے پاؤں کے لفافے کو جراب کہتے ہیں۔ انتہی
اس سے جراب اور موزے میں فرق معلوم ہوتا ہے کہ: موزے چمڑے کے بنے ہوتے ہیں جبکہ جرابیں چمڑے کی نہیں ہوتیں بلکہ اون، سن یاسوت وغیرہ کی بنی ہوتی ہیں۔
اور آج کل نائلون کی جرابیں بھی موجود ہیں۔
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
لیکن جس روایت کو ترمذی: (99) نے بسند:
«أبي قيس عن هُزَيل بن شُرَحبيل عن المُغيرِة بن شُعبة»
روایت کیا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں سمیت جوتوں پر مسح کیا
تو یہ حدیث شاذ اور ضعیف ہے۔
امام ابوداود رحمہ اللہ سنن ابوداود: (159) میں کہتے ہیں کہ:
عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان ہی نہیں کیا کرتے تھے ؛ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور روایت میں صرف موزوں پر مسح کا ذکر ہے۔ انتہی

اسی طرح امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مسح کے بارے میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اہل مدینہ، اہل کوفہ، اہل بصرہ نے روایت کیا ہے، لیکن ہذیل بن شرحبیل نے ان سب کی مخالفت کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہ سے اسے روایت کیا اور اس میں جرابوں کا مسح نقل کیا۔ انتہی
السنن الكبرى از: بیہقی [1/284]

اسی طرح مفضل بن غسان کہتے ہیں کہ:
میں نے یحیی بن معین سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا:
ابوقیس کے علاوہ تمام راوی موزوں پر مسح کا ذکر کرتے ہیں۔ انتہی
السنن الكبرى از: بیہقی [1/284]
نیز اس روایت کو سفیان ثوری، امام احمد، ابن معین، مسلم، نسائی، عقیلی، دارقطنی اور بیہقی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
امام ترمذی کا اس حدیث کے بارے میں کہنا کہ یہ حدیث حسن ہے، اس پر علم حدیث کے ان بلند پایہ ماہرین کی رائے کو ترجیح دی جائے گی، بلکہ اگر ان سب کا اتفاق نہ بھی ہوتا تو ان میں سے ہر ایک کی انفرادی رائے بھی امام ترمذی کی اس بات پر مقدم ہو گی، اس بات پر تمام ماہرین علم حدیث کا اتفاق ہے۔ انتہی
المجموع شرح المهذب [1/500]

لیکن جرابوں پر مسح کرنا صحابہ کرام سے ثابت ہے
چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو صحابہ کرام سے جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن ابی طالب، عمار بن یاسر، ابومسعود، انس بن مالک، ابن عمر، براء بن عازب، بلال، ابوامامہ، اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم اجمعین انتہی
الأوسط [1/462]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ابوداود نے ان کی تعداد میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا: ابوامامہ، عمرو بن حریث، عمر فاروق اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ان میں شامل ہیں۔
لہٰذا جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں دلیل صحابہ کرام کا عمل ہے، ابوقیس کی روایت نہیں ہے۔
نیز امام احمد نے جرابوں پر مسح کو صراحت کیساتھ جائز قرار دیا ہے، لیکن ابوقیس کی روایت کو کمزور کہا ہے۔

یہ امام احمد رحمہ اللہ کا علمی عدل و انصاف ہے کہ انہوں نے جرابوں پر مسح کے لیے دلیل صحابہ کرام کا عمل، اور صریح قیاس کو رکھا ہے ؛ کیونکہ جرابوں اور موزوں کے مابین کوئی مؤثر فرق نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے دونوں کا حکم الگ الگ کیا جائے۔ انتہی
تهذيب السنن [1/187]

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا اور ان کے زمانے میں کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی تو اس طرح اس پر اجماع ہو گیا۔ انتہی
المغنی [1/215]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جرابوں اور جوتوں میں فرق صرف اور صرف یہ ہے کہ جرابیں اون کی ہوتی ہیں اور جوتے چمڑے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات تو واضح ہے کہ: اس قسم کا فرق شرعی احکام میں مؤثر نہیں ہوتا، اس لیے چمڑے، سوت، سن، یا اون کسی بھی چیز کے ہوں سب کا حکم ایک ہی ہو گا۔ بالکل اسی طرح جیسے سیاہ یاسفید احرام کی چادر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ چمڑا اون سے زیادہ دیر تک چلتا ہے، لیکن اس سے شرعی حکم پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے، نیز چمڑے کے مضبوط ہونے سے بھی کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا۔۔۔ اور یہ بھی وجہ ہے کہ: جیسے چمڑے کے بنے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح اون وغیرہ کی بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، دونوں میں مسح کرنے کی ضرورت اور حکمت بالکل یکساں ہیں، لہٰذا اگر ان دونوں کا حکم یکساں نہ رکھا گیا تو یہ دو ایک جیسی چیزوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے مترادف ہو گا جو کہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ عدل اور قیاس صحیح پر مبنی موقف سے متصادم ہے، اور جو (موزے اور جرابوں میں مسح کا حکم الگ الگ رکھنے کیلیے) یہ فرق بیان کرے کہ جراب میں سے پانی رس کر انسانی جلد تک پہنچ جائے گا اور موزے میں نہیں رسے گا تو یہ غیر مؤثر فرق ہے۔ انتہی
مجموع الفتاوى [21/214]

سوم:
جرابوں پر مسح کی اجازت دینے والے اکثر علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ:
جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ انہیں پہن کر آپ چل سکیں۔
دیکھیں: المبسوط [1/102]، المجموع [1/483]، الإنصاف [1/170]
کیونکہ جرابوں کا حکم موزوں والا ہی ہے،
اور موزے شفاف اور باریک نہیں ہوتے، اس لیے موزوں کے حکم میں وہی جرابیں ہوں گی جو شفاف اور باریک نہ ہو ں بلکہ موزے کی طرح موٹی ہوں۔

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرناجائز نہیں۔ انتہی
بدائع الصنائع [1/10]

اسی طرح ابن قطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ: اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح کرناجائز نہیں ہے۔ انتہی
الإقناع في مسائل الإجماع [مسئله نمبر: 351]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کیاجرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرناجائز ہے؟
تو انہوں نے کہا: جرابوں پر مسح کرنا اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو، چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یانہیں۔ انتہی
مجموع الفتاوى [21/213]

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
اگر جرابیں بالکل باریک ہوں تو ان پر مسح کرناجائز نہیں ہے ؛ کیونکہ عام طور پر باریک جراب پہن کر چلنا ممکن نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان پر مسح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتہی
شرح عمدة الفقه [1/251]

اسی طرح فتاوی دائمی کمیٹی (5/267) میں ہے کہ:
جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ اس میں سے جلد نظر نہ آئے۔ انتہی

اسی طرح ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
ہر اس چیز پر مسح کرناجائز ہے جو پاؤں ڈھانپنے کیلیے استعمال ہو، چاہے وہ موزے ہوں یا موٹی جرابیں۔ انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة [4/101]

اسی کے مطابق شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا فتوی ہے:
بھیڑیا اونٹ کی اون، بالوں اور سوت وغیرہ سے بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرناجائز ہے، بشرطیکہ موٹی ہوں اور جس قدر پاؤں کو دھونا لازمی ہے اتنے حصے کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ دیگر شرائط بھی پوری ہوں۔ انتہی
فتاوى و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم [2/66]

نیز ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
اگر جراب اتنی باریک ہو کہ جلد نظر آئے۔۔۔ تو اس پر مسح کرناجائز نہیں ہے۔ انتہی
فتاوىٰ و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم [2/68]

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ: جرابیں موٹی اور پورے قدم کو ڈھانپ دیں، چنانچہ اگر جرابیں شفاف ہوں تو اس پر مسح کرناجائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس صورت میں پاؤں ننگا ہونے کے حکم میں ہو گا۔ انتہی
فتاوىٰ الشیخ ابن باز [10/110]

کچھ علمائے کرام نے جرابوں پر مسح کو مطلقاً جائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ہمارے (شافعی) فقہائے کرام نے عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے جرابوں پر مسح کرنے کا جواز نقل کیا ہے چاہے جرابیں باریک ہی کیوں نہ ہوں، نیز یہی بات ابویوسف، محمد، اسحاق، اور داود سے بھی انہوں نے نقل کی ہے۔ انتہی
المجموع شرح المهذب [1/500]

ہر حالت میں جرابوں پر مسح کے جواز کے موقف کو:
شیخ البانی اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ راجح قرار دیتے ہیں۔
لیکن جو موقف پہلے گزرا ہے وہ اکثر علمائے کرام کا موقف ہے اور وہی راجح ہے ؛ کیونکہ جرابوں پر مسح کرنے کا جواز اس وقت پیدا ہواجب انہیں موزوں پر قیاس کیا گیا، لیکن بالکل باریک جرابوں کو موزوں پر قیاس کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ شفاف جرابیں موزوں جیسی نہیں ہوتیں۔

نیز جن جرابوں پر صحابہ کرام مسح کیا کرتے تھے وہ بھی موٹی ہوا کرتی تھیں؛ کیونکہ شفاف جرابیں تو اب آئیں ہیں۔

امام احمد کہتے ہیں:
جرابوں پر مسح اسی وقت درست ہو گا جب جرابیں موٹی ہوں۔۔۔ کیونکہ صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہی اس لیے تھا کہ وہ جرابیں ان کے ہاں موزوں کے قائم مقام تھیں، اس طرح کہ انسان وہ جرابیں پہن کر با آسانی چل پھر سکتا تھا۔ انتہی
المغنی از: ابن قدامہ [1/216]

اگر یہ کہا جائے کہ علمائے کرام نے جرابوں کے بارے میں یہ شرائط کیوں عائد کی ہیں؟
تو اس کے جواب کے لیے مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قرآنی آیت کی رو شنی میں پاؤں کو دھونا ہی اصل ہے، اور اس اصل سے منتقل ہونے کیلیے ایسی صحیح احادیث کا ہونا لازمی ہے جن کے صحیح ہونے سے متعلق سب علمائے کرام کا اتفاق ہو، جیسے کہ موزوں پر مسح کرنے کی احادیث ہیں، چنانچہ ان احادیث کی وجہ سے پاؤں دھونے کی بجائے موزوں پر مسح کرنے پر اکتفا کرنا بلا اختلاف جائز ہو گیا۔

لیکن جرابوں پر مسح کرنے کی احادیث ماہرین علم حدیث کے ہاں صحیح نہیں ہیں، تو پاؤں کو دھونے کی بجائے جرابوں پر مسح کو مطلقاً جائز کیسے کہا جا سکتا ہے؟

اس لیے علمائے کرام نے جرابوں پر مسح کرنے کیلیے یہ شرائط عائد کی ہیں تاکہ جرابوں اور موزوں میں یکسانیت قائم رہے اور ان جرابوں کو موزوں کی احادیث کے ضمن میں شامل کیا جا سکے۔۔۔

چنانچہ اگر جرابیں موٹی ہیں اور ڈھیلی نہیں ہیں بلکہ بذات خود پاؤں کے سات چمٹی رہتی ہیں انہیں باندھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، نیز ان میں آسانی سے چلنا بھی ممکن ہے تو بلا شک و شبہ ایسی جرابوں اور موزوں میں کوئی خاطر خواہ فرق نہیں ہے ؛ کیونکہ یہ موزوں کے حکم میں ہیں، اور اگر جرابیں بالکل باریک ہوں کہ قدموں پر چمٹا کر رکھنے کے لیے انہیں باندھنا بھی پڑے اور ان میں چلنا بھی ممکن نہ ہو تو پھر یہ جرابیں موزوں کے حکم میں نہیں ہوں گی، کیونکہ اس صورت میں جرابوں اور موزوں میں واضح فرق ہے۔

آپ غور کریں کہ: اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو موزے جوتوں کا کام دیتے ہیں، ان میں انسان آسانی سے چل پھر سکتا ہے، جہاں مرضی جا سکتا ہے، اس لیے موزے جس شخص نے پہن رکھے ہوں اسے چلنے کے لیے موزے اتارنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، اس لیے وہ موزوں کو ایک دن اور رات تک پہنے رکھتا ہے اتارتانہیں ہے، بلکہ کئی دن اور رات تک بھی پہنے رکھتا ہے، تو ایسی صورت میں اس کے لیے ہر وضو کے وقت انہیں اتارنا مشقت طلب ہو گا۔

لیکن باریک جرابیں جس شخص نے پہنی ہوئی ہوں تو وہ چلنے سے پہلے انہیں دن میں کئی بار اتارے گا، تو ایسی صورت میں اس کے لیے وضو کرتے ہوئے جرابوں کو اتارنا مشقت طلب نہیں ہو گا۔

لہٰذا اس فرق کا تقاضا ہے کہ موزے پہننے والے کیلیے ان پر مسح کی اجازت دی جائے لیکن باریک جرابیں پہننے والے کو مسح کی اجازت نہ دی جائے، نیز باریک جرابوں کو موزوں پر مسح کیلیے قیاس کرنا بھی قیاس مع الفارق ہو گا۔ انتہی
تحفۃ الأحوذی [1/ 285]

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ:
اکثر علمائے کرام باریک اور شفاف جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دیتے، نیز اگر جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے تو موٹی جرابوں کے بارے میں ہے۔
«والله اعلم .»
   اسلام کیو اے، حدیث/صفحہ نمبر: 228222