بلوغ المرام
كتاب الطهارة -- طہارت کے مسائل
6. باب نواقض الوضوء
وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان
حدیث نمبر: 76
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏يأتي أحدكم الشيطان في صلاته فينفخ في مقعدته،‏‏‏‏ فيخيل إليه أنه أحدث،‏‏‏‏ ولم يحدث،‏‏‏‏ فإذا وجد ذلك فلا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا» .‏‏‏‏ أخرجه البزار. وأصله في الصحيحين من حديث عبد الله بن زيد.ولمسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه نحوه. وللحاكم عن أبي سعيد مرفوعا: «‏‏‏‏إذا جاء أحدكم الشيطان،‏‏‏‏ فقال: إنك أحدثت،‏‏‏‏ فليقل: كذبت» .‏‏‏‏ وأخرجه ابن حبان بلفظ:«‏‏‏‏فليقل في نفسه» .‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز میں تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور اس کی مقعد میں پھونک مارتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ خیال ڈالا جاتا ہے کہ وہ بےوضو ہو گیا ہے حالانکہ وہ بےوضو نہیں ہوا ہوتا لہٰذا تم میں سے جب کوئی ایسا محسوس کرے تو ریح کے خارج ہونے کی آواز سننے یا اس کی بدبو پانے تک نماز سے نہ پھرے۔
اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی اصل بخاری میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موجود ہے۔ مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان جیسے ہی الفاظ مروی ہیں۔ اور حاکم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے پاس شیطان آئے اور ذہن میں وسواس ڈالے کہ تو بےوضو ہو گیا تو یہ شخص اسے جواب میں کہے کہ تو جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو ابن حبان نے ان الفاظ سے روایت کیا ہے کہ وہ شخص اپنے دل میں کہے کہ تو جھوٹا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البزار (كشف الاستار):1 / 147، حديث:281 واللفظ له، حديث عبدالله بن زيد: أخرجه البخاري، الوضوء، حديث: 137، ومسلم، الطهارة، حديث: 361، حديث أبي هريرة: أخرجه مسلم، الطهارة، حديث: 362، حديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1029، وابن حبان(الموارد)، حديث:1187، صحيحه الحاكم علي شرط الشيخين:1 /324، ووافقه الذهبي.»
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 160  
´ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی گئی کہ آدمی (بسا اوقات) نماز میں محسوس کرتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک بو نہ پا لے، یا آواز نہ سن لے نماز نہ چھوڑے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 160]
160۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر نماز کے دوران میں ہوا نکلنے کا شبہ پڑے تو محض وہم اور شک کی بنیاد پر نماز سے نہیں نکلنا چاہیے جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ہوا خارج ہوئی ہے کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے کہ اشیاء اپنی اصل ہی پر رہتی ہیں جب تک اس کے برعکس کا یقین نہ ہو۔ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ [الأشباه و النظائر]
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوا نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تبھی تو نماز سے نکلنے کا کہا گیا ہے۔
➌ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو اس کے متعلق پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو جس قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا، وہ فوراًً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 160   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث513  
´حدث کے بغیر وضو کے واجب نہ ہونے کا بیان۔`
عباد بن تمیم کے چچا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس شخص کا معاملہ لے جایا گیا جس نے نماز میں (حدث کا) شبہ محسوس کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، شک و شبہ سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ وہ گوز کی آواز نہ سن لے، یا بو نہ محسوس کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 513]
اردو حاشہ:
(1)
ہوا خارج ہونے سے پہلے وضو ٹوٹ جاتا ہے خواہ آواز آئے یا نہ آئے۔

(2)
محض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ پیشاب پاخانہ وغیرہ سے وضو ٹوٹنا صحیح دلائل سے ثابت ہے۔
یہاں صرف یہ مسئلہ بتایا گیا ہے کہ وضو ٹوٹنے کا یقین یا ظن غالب ہونا چاہیے محض وہم اور شک کی بنیاد پر وضو کے لیے نہیں جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 513