Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
10. باب الحيض
حیض (سے متعلق احکام) کا بیان
حدیث نمبر: 125
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏أليس إذا حاضت المرأة لم تصل ولم تصم» ‏‏‏‏؟. متفق عليه في حديث طويل.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کیا عورت جب حالت حیض میں ہوتی ہے تو نماز اور روزہ چھوڑ نہیں دیتی؟ (بخاری و مسلم) یہ لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحيض، باب ترك الحائض الصوم، حديث:304، ومسلم، الإيمان، باب بيان نقصان الإيمان بنقص الطاعات...، حديث:79.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 125 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 125  
لغوی تشریح:
«أَلَيْسَ» اس میں ہمزہ انکار کے لیے ہے۔ جب نفی کا انکار ہو تو اثبات ثابت ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوئے کہ شریعت میں ایسی عورت کے لیے ترک صلاۃ و صوم ثابت ہے، البتہ دیگر دلائل کی رو سے روزوں کی قضا دوسرے ایام میں ادا کرے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں، اس لیے کہ اس قضا کا ادا کرنا عورت کے لیے نہایت مشکل ہے اور یہ عورت کے حق میں ثابت بھی نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 19  
´عورتوں کونصیحتیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ - [14] - أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرجل الحازم من إحداكن قُلْنَ وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَان عقلهَا أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تَصِلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلَى قَالَ فَذَلِكَ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقرہ عید یا عیدالفطر میں عیدگاہ کی طرف نکلے تو عورتوں کے پاس سے آپ کا گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے عورتوں کی جماعت! تم لوگ صدقہ و خیرات کرو کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تم دوزخ میں زیادہ جانے والی ہو۔ (یعنی عورتیں زیادہ تر دوزخ میں داخل ہوں گی۔) ان عورتوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورتیں کس وجہ سے دوزخ میں زیادہ تر داخل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعن و طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی نافرمانی اور ناشکری بہت کرتی ہو، دین و عقل کی کمی تم لوگوں سے زیادہ کسی میں نہیں دیکھی ہے کہ تم سب سے زیادہ بےعقل بھی ہو اور تم لوگوں کا دین بھی ناقص ہے کہ ہوشیار اور سمجھدار آدمی کی عقل کو کھو دیتی ہو۔ ان عورتوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کیا کمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایک عورت کی گواہی ایک مرد کے نصف گواہی کے برابر نہیں ہے (یعنی شریعت میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے) ان عورتوں نے کہا: ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کی عقل کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا جس وقت عورت ماہواری کی حالت میں ہوتی ہے تو نماز نہیں پڑھتی اور نہ روزہ رکھتی ہے؟ ان عورتوں نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دین کی کمی کا سبب ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 19]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 304]،
[صحيح مسلم 2053]

فقہ الحدیث
➊ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مردوں کو عورتوں پر بحیثیت مجموعی برتری حاصل ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ»
مرد عورتوں پر نگراں ہیں۔‏‏‏‏ [سورة النساء: 34]
➋ نماز دین اسلام کا ایک (یعنی دوسرا) بنیادی رکن ہے، چونکہ نماز عمل کا نام ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ نماز اعمال دین (یعنی ایمان) میں سے ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ»
اور اللہ تمہارے ایمان (یعنی نمازیں) ضائع نہیں کرے گا۔ [سورة البقرة:143]
➌ عورت ایام حیض میں نہ نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ روزہ رکھ سکتی ہے۔ اس کے لئے دین کے یہ دونوں کام، اس حالت میں ممنوع ہیں۔ دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ ایام حیض گزرنے کے بعد وہ روزوں کی قضا تو کرے گی، لیکن نماز کی قضا نہیں کرے گی۔
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا؟ اس کا ذکر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن والی نماز کے دوران میں عورتوں کو جہنم میں دیکھا تھا۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 1052، وصحيح مسلم 907/17، اضوء المصابيح 1482]
تنبیہ:
ایک روایت میں آیا ہے کہ ہر آدمی کو بہتر 72 حوریں اور سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد سے دو عورتیں ملیں گی۔ [مسند ابي يعلي بحواله النهاية فى الفتن والملاحم 1؍177 ح498 بتحقيقي، وتحقيق ثاني ح: 53 والمطولات للطبراني ح: 36/المعجم الكبير 25؍276]
اس سے معلوم ہوا کہ جنت میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ہوں گی۔
↰ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے، اس کا راوی اسماعیل بن رافع ضعیف ہے۔
↰ حافظ ابن حجر نے کہا: «ضعيف الحفظ» [تقريب التهذيب: 442]
↰ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «لا يصح» یہ صحیح نہیں ہے۔ [الكامل لابن عدي 1؍278 وسنده صحيح]
➎ اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی ہے۔ یعنی ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید کی آیت سے بھی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ»
پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں (کی گواہی پیش کرو۔) [سورة البقره: 282]
تنبیہ: جن امور کا تعلق خاص عورت سے ہے مثلاً بچے کو دودھ پلانا وغیرہ تو اس میں ایک عورت کی گواہی بھی مقبول ہے اور اسی طرح قبول روایت میں ایک ثقہ عورت کی گواہی مقبول ہے۔
➏ مسلمان کا مسلمان پر لعنت بھیجنا حرام ہے، اگرچہ جس پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شرابی پر کسی نے لعنت بھیجی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا تلعنوه» اس پر لعنت نہ بھیجو۔‏‏‏‏ [صحيح البخاري: 6780]
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ متعین زندہ کافر پر بھی لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے۔ اگر کافر مر جائے اور اس بات کا یقینی ثبوت ہو کہ وہ کفر پر مرا ہے تو پھر اس پر لعنت بھیجنا جائز ہے، جیسے ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کافروں پر لعنت بھیجنا بالاجماع جائز ہے۔ کسی متعین انسان کا نام لئے بغیر عام لعنت بھیجی جا سکتی ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی اور سودی پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 3478 وصحيح مسلم 1598، 1597]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 19   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 304  
´عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے`
«. . . قَالَ: أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟ قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 304]
لغوی توضیح:
«اُرِيْتُكُنَّ» مجھے دکھایا گیا ہے (یعنی معراج کی رات)۔
«تَكْفُرْنَ الْعَشِيْرَ» شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
«لُبّ» عقل۔
«الْحَازم» مضبوط و ضابط شخص۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا دین اور عقل مردوں سے کم ہے۔ یاد رہے کہ یہ بات مجموعی اعتبار سے ہے کیونکہ انفرادی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ بہت سی عورتیں بہت سے مردوں سے زیادہ عقل مند اور دین پر عمل پیرا ہوں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گی۔ لہٰذا خواتین کو ایک تو شوہروں کی نافرمانی و ناشکری سے بچنا چاہئیے اور دوسرے زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ صدقہ آتش جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے کہ آگ سے بچو خواہ کھجور کی گٹھلی صدقہ کر کے ہی۔ [بخاري: كتاب الزكاة: بَابُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ: 1417]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 49   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 304  
تشریح:
قسطلانی نے کہا کہ لعنت کرنا اس پر جائز نہیں ہے جس کے خاتمہ کی خبر نہ ہو، البتہ جس کا کفر پر مرنا یقینی ثابت ہو اس پر لعنت جائز ہے۔ جیسے ابوجہل وغیرہ، اسی طرح بغیر نام لیے ہوئے ظالموں اور کافروں پر بھی لعنت کرنی جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 304   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 515  
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے آج صدقہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ میرے پاس میرا ذاتی زیور ہے میں اسے صدقہ کرنا چاہتی ہوں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا خیال ہے کہ وہ اور ان کی اولاد میرے صدقے کے زیادہ حقدار ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن مسعود نے ٹھیک کہا ہے، تیرا شوہر اور اس کی اولاد تیرے صدقے کے زیادہ مستحق ہیں۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 515]
لغوی تشریح 515:
حُلَیٌ حا پر ضمہ اور کسرہ دونوں جائز ہیں اور لام کے نیچے کسرہ اور یا پر تشدید ہے۔ یہ حَلْیٌ کی جمع ہے۔ حلی کی حا پر فتحہ لام ساکن اور یا مخفف ہے۔ سونے چاندی کے وہ زیورات جو عورت تزئین و آرائش کے لیے پہنتی ہے۔ اسی طرح اس سے موتی اور عمدہ پتھر کے نگینے وغیرہ بھی مراد ہیں۔ یہ حدیث اس بات کے جواز کی دلیل ہے کہ بیوی شوہر کے معاملات و مصالح میں اپنی زکاۃ دے سکتی ہے، بشرطیکہ شوہر محتاج اور عیالدار ہو۔

فائدہ 515:
لفظ صدقہ نفلی صدقہ فرض زکاۃ اور صدقۂ فطر (فطرانہ) سب پر مشترکہ طور پر بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی زکاۃ کی تقسیم کے مصارف کے موقع پر لفظ صدقہ ہی استعمال ہوا ہے۔ اگر اس بات کا کوئی واضح قرینہ موجود نہ ہو کہ یہاں عام صدقہ مراد ہے تو ایسی صورت میں اصول یہ ہے کہ اس سے مراد زکاۃ ہوتی ہے۔ اس مقام پر بھی بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ فرض صدقہ ہے، اس لیے کہ نفلی صدقے کے متعلق تو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ جمھور علما کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ دے سکتی ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بیوی اپنے شوہر کو زکاۃ نہیں دے سکتی۔ لیکن انکا یہ قول اس صریح حدیث کے مخالف ہے۔ اور اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے کہ شوہر اپنی اہلیہ کو زکاۃ نہیں دے سکتا۔ اس حدیث کی روشنی میں جب بیوی فرض زکاۃ دے سکتی ہے تو نفلی صدقہ بدرجۂ اولٰی دے سکتی ہے۔

راوئ حدیث: حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ بنو ثقیف سے ہونے کی وجہ سے ثقفیہ کہلائیں۔ ان کے باپ کا نام معاویہ یا عبداللہ بن معاویہ یا ابومعاویہ ہے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اپنے شوہر اور حضرت عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات بیان کی ہیں۔ اور ان سے ان کے بیٹے، بھتیجے اور بعض دوسرے احباب نے احادیث روایت کی ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 515   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1288  
´عیدین میں خطبے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلتے اور لوگوں کو دو رکعت پڑھاتے، پھر سلام پھیرتے، اور اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر لوگوں کی جانب رخ کرتے، اور لوگ بیٹھے رہتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: لوگو! صدقہ کرو، صدقہ کرو، زیادہ صدقہ عورتیں دیتیں، کوئی بالی ڈالتی، کوئی انگوٹھی اور کوئی کچھ اور، اگر آپ کو لشکر بھیجنا ہوتا تو لوگوں سے اس کا ذکر کرتے، ورنہ تشریف لے جاتے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1288]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید کی نماز مسجد کے بجائے کھلے میدان میں ادا کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی افضل ترین جگہ چھوڑ کر میدان میں نماز عید ادا کی۔

(2)
خطبہ عید کی نماز کے بعد دینا چاہیے۔

(3)
  عید کا خطبہ منبر پر نہیں زمین پر کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے۔

(4)
خطبے میں حالات کے مطابق مناسب مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(5)
عورت اپنی ذاتی چیز خاوند کی اجازت کے بغیر صدقہ کرسکتی ہے۔

(6)
خطبہ اطمینان سے بیٹھ کرسننا چاہیے۔
تاہم کوئی شخص اٹھ جائے تو جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1288   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2053  
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر کے دن نکلتے تھے تو نماز سے آغاز فرماتے اور جب اپنی نماز پڑھ لیتے اور سلام پھیرتے تو کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہو جاتے جبکہ لو گ اپنی نماز گاہ میں بیٹھے رہتے، اگر آپﷺ کو کوئی لشکر بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو اس کا لوگوں کے تذکرہ فرماتے اور اس کے سوا کوئی اور ضرورت ہوتی تو انھیں اس کا حکم دیتے اور فرمایا کرتے صدقہ کرو صدقہ کرو صدقہ کرو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2053]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مروان بن حکم کی گورنری کے دور سے پہلے تک خطبہ سے عید کی نماز پہلے پڑھنے کا معمول جاری تھا اس نے مدینہ میں نماز سے خطبہ پہلے دینے کاعمل شروع کیا۔
لیکن حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برملا اس کو روکا اور کہا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے بہتر طریقہ نکالنا ممکن نہیں ہے۔
اس لیے تمہارا یہ طرز عمل درست نہیں ہے لیکن مروان نے ان کی بات نہیں مانی۔
تو انہوں نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔
اس کو صحیح بات سمجھانے پر اکتفا کیا۔
اور اس کے بعد اس کی اقتداء میں عید پڑھ لی۔
اور نماز کے بعد دوبارہ اس مسئلہ میں ان سے گفتگو کی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:304  
304. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لے گئے۔ پھر آپ کا گزر عورتوں پر ہوا تو آپ نے فرمایا: اے عورتوں کے گروہ! تم صدقہ زیادہ کیا کرو کیونکہ میں نے تمہاری اکثریت جہنم میں دیکھی ہے۔ وہ بولیں: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا: تم لعنت بہت کرتی ہو اور اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ کسی کو دین و عقل میں نقص رکھنے کے باوجود پختہ رائے مرد کی عقل کو لے جانے والا نہیں پایا۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہماری عقل اور دین میں نقصان (کمی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی نصف گواہی کے برابر نہیں؟ انھوں نے کہا: بےشک ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا یہ حقیقت نہیں کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزک رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا: ہاں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:304]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے عنوان میں صرف ترک روزے کو بیان کیا ہے، حالانکہ حالتِ حیض میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں کی حیثیت الگ الگ ہے، کیونکہ حائضہ عورت نماز کی اہل تو اس لیے نہیں رہتی کہ اس میں طہارت شرط ہے اور حیض کی حالت میں طہارت کا فقدان ہوتا ہے، جس کی بنا پر حائضہ نماز کی مکلف ہی نہیں۔
لیکن روزے کی حالت اس سے مختلف ہے۔
روزے میں طہارت شرط نہیں، اس کے باوجود شریعت نے حالت حیض کو روزے کے لیے مانع قراردیا ہے۔
چونکہ نماز کے حق میں حائضہ کی اہلیت ہی باقی نہیں رہتی، اس لیے حیض کے بعد طہارت کے ایام میں اس کی قضا لازم نہیں، لیکن روزے کے حق میں اس کی اہلیت باقی تھی، لہذا یہ یکسر معاف نہیں، بلکہ ایام طہارت میں اس کی قضا ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے نماز اورروزے کے ترک کو ایک باب میں جمع نہیں کیا، بلکہ نماز کے ترک کا آئندہ عنوان قائم کریں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے محدث ابن رشید کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری نے اپنی عادت کے مطابق مشکل کو واضح کیا اور واضح بات کو آئندہ کے لیے ترک کردیا، کیونکہ ترک نماز کی بات شرط طہارت کی وجہ سے واضح تھی اور روزے میں چونکہ طہارت شرط نہیں اور اس کا ترک محض تعبدی تھا، س لیے امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق صراحت سے لکھا۔
(فتح الباري: 526/1)
تعبدی کا مطلب یہ ہے کہ جس کی کوئی معقول وجہ سامنے نہ ہو، محض اللہ کا حکم سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے، کیونکہ حائضہ کا نماز ترک کرنا معقول المعنی ہے کہ اس کے لیے طہارت شرط ہے، لیکن روزے میں طہارت شرط نہیں، لہذا بحالت حیض اس کا ترک کرنا محض حکم الٰہی کے پیش نظر ہے۔

جنبی کاروزہ صحیح اور حیض ونفاس والی عورت کا غیر صحیح اس لیے ہے کہ ان کا حدث جنبی کے حدث سے زیادہ اغلظ (کہیں زیادہ شدید)
ہے۔
جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے۔
(فتح الباري: 529/1)
پھر حدث کے مراتب پر بھی نظر رہنی چاہیے، مثلاً:
۔
ایک عدم طہارت حدث اصغر(بلا وضو)
کی ہے۔
اس کی موجودگی میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی، البتہ قرآن مجید کی تلاوت ہوسکتی ہے اور مسجد میں داخل ہونا بھی مباح ہے۔
۔
اور دوسری عدم طہارت حدث اکبر(جنابت)
کی ہے۔
اس کی وجہ سے تلاوت بھی ممنوع اور مسجد میں داخل ہونا بھی ناجائز ہے۔
مگر اس کی موجودگی میں روزہ رکھا جاسکتا ہے۔
۔
تیسری عدم طہارت حالتِ حیض ونفاس کی ہے جو شدت وغلظت میں جنابت سے بھی آگے ہے۔
اس کی موجودگی میں نماز، روزہ، تلاوت قرآن اور دخول مسجد سب کچھ منع ہے۔
پھر اس دوران میں روزہ نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اولاً عورتیں پیدائشی طور پر کمزور اورناتواں ہوتی ہیں، پھر حیض ونفاس کا خون جاری ہونے سے ان کی نقاہت مزید بڑھ جاتی ہے۔
ایسی حالت میں اگرروزہ ضروری قرار دیا جاتا تو ان کے لیے مزید تکلیف کا باعث تھا، اس لیے انھیں مستثنیٰ قراردیا گیا، لیکن جنبی آدمی کو روزہ رکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی، اس لیے اسے روزہ رکھنے کا پابند کیا گیا ہے۔
طبی لحاظ سے بھی ایام حیض میں روزہ نقصان دہ ہے کیونکہ حائضہ کی صحت کے لیے حیض کا ادرار(جاری رہنا)
ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس دوران میں ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔
جن کی وجہ سے حیض بسہولت جاری رہتا ہے، جبکہ روزے سے خشکی بڑھتی ہے اور خون کے جاری ہونے میں دقت پیداہوتی ہے، لہذا طبی لحاظ سے بھی حائضہ کے لیے روزہ مفید نہیں۔

حیض ونفاس کی حالت میں فوت شدہ نمازیں ادا نہیں کی جاتیں جبکہ روزے بعد میں رکھے جاتے ہیں، اس کی مختلف توجہیات بیان کی گئی ہیں:
۔
شریعت کاحکم ہے اور اس کا اتباع ضرروری ہے، خواہ اس کے فرق کا ادراک ہویا نہ ہو۔
خود حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہمیں قضائے صوم کاحکم دیا جاتا تھا، قضائے صلاۃ کے متعلق نہیں کہا جاتا تھا۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 7763(335)
۔
نماز کا وجوب بار بار اور زیادہ ہوتا ہے، اتنی زیادہ نمازوں کی قضا میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے معاف ہے، لیکن روزے میں ایسا نہیں ہوتا، وہ سال بھر میں چند ہی قضا ہوتے ہیں۔
(فتح الباری: 547/1)
۔
طہارت کے بعد وقتی نمازوں کے ساتھ حالت حیض ونفاس کی قضا نمازوں کی ادائیگی کا حکم بھی ہوتا توعمل ڈبل ہوجاتا، اس کی ادائیگی میں خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا، البتہ روزے اس کے برعکس ہیں۔
سات یا آٹھ روزے سال کے باقی گیارہ مہینوں میں بسہولت رکھے جاسکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 304   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1462  
1462. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اور انھیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، فرمایا:لوگو! صدقہ کیا کرو۔ پھر عورتوں کےپاس گئے اورفرمایا:اے عورتوں کی جماعت!صدقہ کرو، میں نے تمھیں بکثرت جہنم میں دیکھا ہے۔ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!ایسا کیوں ہے؟آپ نے فرمایا:تم لعن و طعن بہت کرتی ہواور اپنے شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو، اے عورتو!میں نے عقل ودین میں تم سے زیادہ ناقص کسی کو نہیں دیکھا جو بڑے زیرک ودانا کی عقل کو مضمحل کردے۔ پھر آپ ﷺ واپس ہوئے، جب گھر تشریف لائےتو ابن مسعود ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ آئیں اور آپ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی، چنانچہ عرض کیا گیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!زینب آئی ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا: کون سی زینب؟ عرض کیا گیا: ابن مسعود ؓ کی بیوی۔ آپ نے فرمایا:اچھا!انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1462]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی اپنے نادار خاوند اور ماں اپنے مفلس بچوں پر خیرات کر سکتی ہے اور انہیں زکاۃ بھی دے سکتی ہے۔
حضرت زینب ؓ کا زیورات کے متعلق سوال کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ فرض زکاۃ کے بارے میں تھا۔
اگر اسے نفلی صدقہ پر محمول کر لیا جائے تو امام بخاری ؒ نے اس پر فرض صدقہ کو قیاس کیا ہے۔
(2)
حضرت زینب کا دوسرا نام رائطہ ہے۔
ان کے متعلق ایک اور واقعہ بھی احادیث میں منقول ہے کہ یہ دستکاری کی ماہر تھیں اور اسے انہوں نے ذریعہ معاش بنایا تھا۔
اس کمائی سے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی تھیں۔
ایک دن انہوں نے کہا:
ایسے حالات میں صدقہ و خیرات کے لیے کچھ بھی پس انداز نہیں ہوتا، نہ کسی دوسرے پر خیرات کرنے کا موقع ہی ملتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اگر تجھے اس سے ثواب کی امید نہیں تو بلاشبہ ہم پر خرچ کرنا چھوڑ دو، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا:
اللہ کے رسول! کیا ان پر خرچ کرنے سے مجھے کوئی اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
ان پر خرچ کرتی رہو تمہیں اس پر اجروثواب ضرور ملے گا۔
(مسندأحمد: 503/3) (3)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ٹانگوں سے کچھ معذور تھے اور زیادہ محنت و مزدوری کرنے کے قابل نہ تھے، اس لیے ان کی بیوی گھر کے اخراجات پورے کرتی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1462