Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

بلوغ المرام
كتاب الطهارة
طہارت کے مسائل
10. باب الحيض
حیض (سے متعلق احکام) کا بیان
حدیث نمبر: 126
وعن عائشة رضي الله تعالى عنها قالت: لما جئنا سرف حضت فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏افعلي ما يفعل الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري» .‏‏‏‏ متفق عليه في حديث طويل.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ہم مقام سرف میں آئے تو مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے (میرے بتانے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مناسک حج تم بھی اسی طرح ادا کرو جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں البتہ طواف بیت اللہ ایام سے فارغ ہو کر نہا دھو کر کرنا (بخاری و مسلم) یہ لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الحيض، باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت، حديث:305، ومسلم، الحج، باب بيان وجوه الإحرام...، حديث:1211.»

حكم دارالسلام: صحيح

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 126 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 126  
لغوی تشریح:
«لَمَّا جِئْنَا» جب ہم آئے۔ یہ دراصل حجۃ الوداع کے سفر کا واقعہ ہے۔ اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حالت احرام میں تھیں۔
«سَرِف» سین پر فتحہ اور را کے نیچے کسرہ ہے۔ اور یہ دو اسباب کی وجہ سے غیر منصرف ہے: ایک علمیت، یعنی جگہ کا نام اور دوسرا تانیث۔ مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ تقریباً دس میل کے فاصلے پر۔
«حِضْتُ» واحد متکلم کا صیغہ ہے۔ مجھے ایام ماہواری شروع ہو گئے۔

فائدہ:
اس حدیث کی رو سے حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتی، اس لیے کہ اکثر علماء کے نزدیک طواف کے لیے پاکیزگی شرط ہے۔ حالت حیض میں عورت چونکہ ناپاک ہو جاتی ہے اور ناپاک عورت کا مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنا بھی جائز نہیں، خانہ کعبہ تو افضل المساجد ہے، اس لیے طواف بدرجہ اولیٰ نہیں کر سکتی بلکہ ایسی حالت میں تو وہ نماز بھی نہیں پڑھ سکتی۔ علاوہ ازیں اب مسعٰی (سعی کرنے کی جگہ) بھی مسجد میں شامل ہو گئی ہے، اس لیے اب سعی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے مصنف (بلوغ المرام) نے اس حدیث کو اس بلوغ المرام کے باب «باب الحيض» میں ذکر کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 126   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]
تشریح:
سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد بابا فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائض .» [تحفة الاحوذي، جلد1، ص: 124]
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہو گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11، ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات تو موجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دو روایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہر دو کو قرات کی اجازت ہے اور طبری، ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔

مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
«تمسك البخاري ومن قال بالجواز غيره كالطبري و ابن المنذر وداود بعموم حديث كان يذكر الله على كل احيانه لان الذكر اعم ان يكون بالقرآن اوبغيره الخ» [تحفة الاحوذي، ج1، ص: 124]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث «يذكرالله على كل احيانه» (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکر میں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگر جمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیا جائے۔

صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاء اسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہو کر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہو گا۔ [ايضاح البخاري، ج2، ص: 32]
(امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں)۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 305   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 316  
´عورت کا حیض کے غسل کے بعد کنگھا کرنا جائز ہے`
«. . . أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " أَهْلَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَكُنْتُ مِمَّنْ تَمَتَّعَ وَلَمْ يَسُقْ الْهَدْيَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا حَاضَتْ وَلَمْ تَطْهُرْ حَتَّى دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ لَيْلَةُ عَرَفَةَ وَإِنَّمَا كُنْتُ تَمَتَّعْتُ بِعُمْرَةٍ؟ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَمْسِكِي عَنْ عُمْرَتِكِ فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْتُ الْحَجَّ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي نَسَكْتُ " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کیا، میں تمتع کرنے والوں میں تھی اور ہدی (یعنی قربانی کا جانور) اپنے ساتھ نہیں لے گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق بتایا کہ پھر وہ حائضہ ہو گئیں اور عرفہ کی رات آ گئی اور ابھی تک وہ پاک نہیں ہوئی تھیں۔ اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! آج عرفہ کی رات ہے اور میں عمرہ کی نیت کر چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سر کو کھول ڈال اور کنگھا کر اور عمرہ کو چھوڑ دے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے حج پورا کیا۔ اور لیلۃ الحصبہ میں عبدالرحمٰن بن ابوبکر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ وہ مجھے اس عمرہ کے بدلہ میں جس کی نیت میں نے کی تھی تنعیم سے (دوسرا) عمرہ کرا لائے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ امْتِشَاطِ الْمَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنَ الْمَحِيضِ:: 316]
تشریح:
تمتع اسے کہتے ہیں کہ آدمی میقات پر پہنچ کر صرف عمرہ کا احرام باندھے پھر مکہ پہنچ کر عمرہ کر کے احرام کھول دے۔ اس کے بعد آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے۔ ترجمہ الباب اس طرح نکلا کہ جب احرام کے غسل کے لیے کنگھی کرنا مشروع ہوا تو حیض کے غسل کے لیے بطریق اولیٰ ہو گا۔ تنعیم مکہ سے تین میل دور حرم سے قریب ہے۔ روایت میں لیلۃ الحصبۃ کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ رات ہے جس میں منیٰ سے حج سے فارغ ہو کر لوٹتے ہیں اور وادی محصب میں آ کر ٹھہرتے ہیں، یہ ذی الحجہ کی تیرہویں یا چودہویں شب ہوتی ہے، اسی کو لیلۃ الحصبہ کہتے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر شارحین نے مقصد ترجمہ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ آیا حائضہ حج کا احرام باندھ سکتی ہے یا نہیں، پھر روایت سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ گو یہ بھی درست ہے مگر ظاہری الفاظ سے معنی یہ ہیں کہ حائضہ کس حالت کے ساتھ احرام باندھے یعنی غسل کر کے احرام باندھے یا بغیر غسل ہی، سو دوسری روایت میں غسل کا ذکر موجود ہے اگرچہ پاکی حاصل نہ ہو گی، مگر غسل احرام سنت ہے۔ اس پر عمل ہو جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 316   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 328  
´جو عورت (حج میں) طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو (اس کے متعلق کیا حکم ہے؟)`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ قَدْ حَاضَتْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَعَلَّهَا تَحْبِسُنَا أَلَمْ تَكُنْ طَافَتْ مَعَكُنَّ؟ فَقَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاخْرُجِي " . . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو (حج میں) حیض آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید کہ وہ ہمیں روکیں گی۔ کیا انہوں نے تمہارے ساتھ طواف (زیارت) نہیں کیا۔ عورتوں نے جواب دیا کہ کر لیا ہے۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر نکلو۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ الْمَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ:: 328]
تشریح:
اسی کو طواف الافاضہ بھی کہتے ہیں۔ یہ دسویں تاریخ کو منیٰ سے آ کر کیا جاتا ہے۔ یہ طواف فرض ہے اور حج کا ایک رکن ہے، لیکن طواف الوداع جو حاجی کعبہ شریف سے رخصتی کے وقت کرتے ہیں، وہ فرض نہیں ہے۔ اس لیے وہ حائضہ کے واسطے معاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 328   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1518  
1518. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ سب لوگوں نے عمرہ کرلیا ہے لیکن میں نہیں کر سکی ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے فرمایا: اپنی ہمشیرہ کولے جاؤ اور انھیں مقام تنعیم سے عمرہ کراؤ۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو اونٹ کے پیچھے پالان پر بٹھا لیا اور اس طرح حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ مکمل کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1518]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت نے حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم بھیجا۔
اس بارے میں حضرت علامہ نواب صدیق حسن خان ؒ فرماتے ہیں۔
میقاتش حل است ازبرائے مکی بحدیث صحیحین وغیرہما کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عبدالرحمن بن ابی بکر را امر فرمود باعائشۃ بسوئے تنعیم برآید ووئے ازانجا عمرہ برآردوہر کہ آنرااز مسکن ومکہ صحیح گوید جواب دادہ کہ این امر بنابر تطیب خاطر عائشہ بو د تا ازحل بکہ درآید چنانکہ دیگر ازواج کردنداواین واجب خلاف ظاہر است۔
ہاصل آنکہ ازوے ﷺ تعین میقات عمرہ واقع نشدہ وتعیین میقات حج ازبرائے اہل ہر جست ثابت گشتہ پس اگر عمرہ دریں مواقیت ہمچوحج باشد آنحضرت ﷺ درحدیث صحیح گفتہ فمن کان دونهم فمهله من أهله وکذلك أهل مکة یهلون منها واین در صحیحین است بلکہ درحقیقت ابن عباس بعد ذکر مواقیت اہل ہر محل تصریح آمدہ با آنکہ رسول خدا ﷺ فرمود حدیث فهن لأ هلهن ولمن أتی علیهن من غیر أهلھن لمن کان یرید الحج والعمرة واین حدیث درصحیحین است ودران تصریح بعمرہ است۔
(بدور الأهلة، ص: 152)
اہل مکہ کے لئے عمرہ کا میقات حل ہے۔
جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ کو فرمایا کہ وہ اپنی بہن عائشہ کو تنعیم لے جائیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کرآئیں اور جن علماء نے یہ کہا کہ عمرہ کا میقات اپنا گھر اور مکہ ہی ہے، انہوںنے اس حدیث کے بارے میں جواب دیا کہ یہ آنحضرت ﷺ نے محض حضرت عائشہ ؓ کی دل جوئی کے لئے فرمایا تھا تاکہ وہ حل سے کر آئیں جیسا کہ دیگر ازواج مطہرات نے کیا تھا اور یہ جواب ظاہر کے خلاف ہے، حاصل یہ کہ آنحضرت ﷺ سے عمرہ کے لیے میقات کا تعیین واقع نہیں ہوا اور میقات حج کا تعیین ہر جہت والوں کے لئے ثابت ہواہے۔
پس اگر عمرہ ان مواقیت میں حج کی مانند ہو تو آنحضرت ﷺ نے حدیث صحیح میں فرمایاہے کہ جو لوگ میقات کے اندر ہوں ان کا میقات ان کا گھر ہے وہ اپنے گھروں سے احرام باندھیں۔
اسی طرح مکہ والے بھی مکہ ہی سے احرام باندھیں اور یہ حدیث صحیحین میں ہے۔
بلکہ حدیث ابن عباس ؓ میں ہرجگہ کی میقات کا ذکر کرنے کے بعد صراحتاً آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پس یہ میقات ان لوگوں کے لئے ہیں جو ان کے اہل ہیں اور جو بھی ادھر سے گزریں حالانکہ وہ یہاں کے باشندے نہ ہوں۔
پھر ان کے لئے میقات یہی مقامات ہیں جو بھی حج اور عمرے کا ارادہ کر کے آئیں۔
پس اس حدیث میں صراحتاً عمرہ کا لفظ موجود ہے۔
نواب مرحوم کا اشارہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب حج کا احرام مکہ والے مکہ ہی سے باندھیں گے اور ان کے گھر ہی ان کے میقات ہیں تو عمرہ کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
کیونکہ حدیث ہذا میں رسول کریم ﷺ نے حج اور عمرہ کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔
بہ سلسلہ میقات جس قدر احکامات حج کے لئے ہیں وہی سب عمرہ کے لئے ہیں۔
ان کی بنا پر صرف مکہ شریف سے عمرہ کا احرام باندھنے والوں کے لئے تنعیم جانا ضروری نہیں ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1518   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1561  
1561. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ (مدینہ سے) روانہ ہوئے تو صرف حج کرنے کاارادہ تھا لیکن جب ہم نے مکہ مکرمہ پہنچ کرکعبہ کاطواف کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص قربانی کاجانور ساتھ لے کر نہ آیا ہو و ہ احرام کھول دے، چنانچہ جو لوگ قربانی ساتھ نہ لائے تھے وہ احرام سے باہر ہوگئے۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات بھی قربانی کاجانور ہمراہ نہ لائی تھیں، اس لیے انھوں نے بھی احرام کھول دیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ ﷺ فرماتی ہیں کہ میں حالت حیض میں تھی، اس لیے میں نے طواف نہ کیا۔ جب وادی محصب میں ٹھہرنے کی رات تھی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ! لوگ تو عمرہ اور حج کرکے لوٹیں گے اور میں صرف حج کرکے واپس جارہی ہوں۔ آپ نے فرمایا: جن راتوں میں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے بھائی (عبدالرحمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1561]
حدیث حاشیہ:
حج کی تین قسمیں ہیں۔
ایک تمتع وہ یہ ہے کہ میقات سے عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ میں جاکر طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے۔
پر آٹھویں تاریخ کو حرم ہی سے حج کا احرام باندھے۔
دوسرے قران وہ یہ ہے کہ میقات سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام ایک ساتھ باندھے یا پہلے صرف عمرے کا احرام باندھے پھر حج کو بھی اس میں شریک کر لے۔
اس صورت میں عمرے کے افعال حج میں شریک ہوجاتے ہیں اور عمرے کے افعال علیحدہ نہیں کرنا پڑتے۔
تیسرے حج مفرد یعنی میقات سے صرف حج ہی کا احرام باندھے اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو اس کا حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینا۔
یہ ہمارے امام احمد بن حنبل اور جملہ اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔
اور امام مالک اور شافعی اور ابو حنیفہ اور جمہور علماء نے کہا کہ یہ امر خاص تھا ان صحابہ سے جن کو آنحضرت ﷺ نے اس کی اجازت دی تھی اور دلیل لیتے ہیں ہلال بن حارث کی حدیث سے جس میں یہ ہے کہ تمہارے لئے خاص ہے اور یہ روایت ضعیف ہے اعتماد کے لائق نہیں۔
امام ابن قیم اور شوکانی اور محققین اہلحدیث نے کہا کہ فسخ حج کو چوبیس صحابہ نے روایت کیاہے۔
ہلال بن حارث کی ایک ضعیف روایت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
آپ نے ان صحابہ کو جو قربانی نہیں لائے تھے، عمرہ کر کے احرام کھول ڈالنے کا حکم دیا۔
اس سے تمتع اور حج کو فسخ کر کے عمرہ کر ڈالنے کا جواز ثابت ہوا اورحضرت عائشہ ؓ کو جو حج کی نیت کر لینے کا حکم دیا اس سے قران کا جواز نکلا۔
گو اس روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے مگر جب انہوں نے حیض کی وجہ سے عمرہ ادا نہیں کیا تھا اور حج کرنے لگیں تو یہ مطلب نکل آیا۔
اوپر کی روایتوں میں اس کی صراحت ہوچکی ہے۔
(وحيدالزمان مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1561   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1757  
1757. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کاذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: کیایہ ہمیں رو ک لے گی؟ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں نے طواف زیارت کرلیاہے۔ آپ نے فرمایا: پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی سفر کا آغاز کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1757]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روایت میں پہلے گزر چکا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہ ؓ سے صحبت کرنی چاہی تو حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ وہ حائضہ ہیں پس اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ طواف الزیارۃ کرچکی ہیں، جیسے اس روایت سے نکلتا ہے تو پھر آپ ﷺ نے ان سے صحبت کرنے کا ارادہ کیوں کر کیا اور اس کا جواب یہ ہے کہ صحبت کا قصد کرتے وقت یہ سمجھے ہوں گے کہ اور بیویوں کے ساتھ وہ بھی طواف الزیارۃ کرچکی ہیں کیوں کہ آپ ﷺ نے سب بیویوں کو طواف کا اذن دیا تھا اور چلتے وقت آپ ﷺ کو اس کا خیال نہ رہا یا آپ کو یہ خیال آیا کہ شاید طواف الزیارۃ سے پہلے ان کو حیض آیا تھا تو انہوں نے طواف الزیارہ بھی نہیں کیا۔
(وحیدی)
بہرحال اس صورت میں ہر دو احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے، احادیث صحیحہ مختلفہ میں بایں صورت تطبیق دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرنا جیسا کہ آج کل منکرین احادیث دستور سے اپنی ناقص عقل کے تحت احادیث کو پرکھنا چاہتے ہیں، ان کی عقلوں پر خدا کی مار ہو کہ یہ کلام رسول ﷺ کی گہرائیوں کوسمجھنے سے اپنے کوقاصر پاکر ضلالت و غوایت کا یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔
اس شک و شبہ کے لیے ایک ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے کہ احادیث صحیحہ کا انکار کرنا، قرآن مجید کا انکار کرنا ہے، بلکہ اسلام اور اس جامع شریعت کا انکار کرنا ہے، اس حقیقت کے بعد منکرین حدیث کو اگر دائرہ اسلام اور ز مرہ اہل ایمان سے قطعاً خارج قرار دیا جائے تو یہ فیصلہ عین حق بجانب ہے۔
واللہ علی مانقول وکیل۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1757   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1772  
1772. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ہم تمہارا انتظار [صحيح بخاري، حديث نمبر:1772]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ محصب سے آخر رات میں کوچ کرنا مستحب ہے۔
عقری کا لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا سرمنڈی، آپ ﷺ نے از راہ محبت یہ لفظ استعمال فرمائے جیسا کہہ دیا کرتے ہیں سرمنڈی، یہ بول چال کا عام محاورہ ہے۔
یہ حدیث بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہے، خاص طور پر صنف نازک کے لیے پیغمبر ﷺ کے قلب مبارک میں کس قدر رافت اور رحمت تھی کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی ذرا سی دل شکنی بھی گوار نہیں فرمائی بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے ان کو تنعیم جاکر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے بھائی عبدالرحمن ؓ کو ساتھ کر دیا، جس سے ظاہر ہے کہ صنف نازک کو تنہا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔
بلکہ ان کے ساتھ بہرحال کوئی ذمہ دار نگران ہونا ضروری ہے۔
ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہوجانے کی خبر سن کر آپ ﷺ نے ازراہ محبت ان کے لیے عقری حلقی کے الفاظ استعمال فرمائے اس سے بھی صنف نازک کے لیے آپ ﷺ کی شفقت ٹپکتی ہے، نیز یہ بھی کہ مفتی حضرات کو اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری ہے کہ حدود شرعیہ میں ہر ممکن نرمی اختیار کرنا اسوہ نبوت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1772  
1772. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ہم تمہارا انتظار [صحيح بخاري، حديث نمبر:1772]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ محصب سے آخر رات میں کوچ کرنا مستحب ہے۔
عقری کا لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا سرمنڈی، آپ ﷺ نے از راہ محبت یہ لفظ استعمال فرمائے جیسا کہہ دیا کرتے ہیں سرمنڈی، یہ بول چال کا عام محاورہ ہے۔
یہ حدیث بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہے، خاص طور پر صنف نازک کے لیے پیغمبر ﷺ کے قلب مبارک میں کس قدر رافت اور رحمت تھی کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی ذرا سی دل شکنی بھی گوار نہیں فرمائی بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے ان کو تنعیم جاکر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے بھائی عبدالرحمن ؓ کو ساتھ کر دیا، جس سے ظاہر ہے کہ صنف نازک کو تنہا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔
بلکہ ان کے ساتھ بہرحال کوئی ذمہ دار نگران ہونا ضروری ہے۔
ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کے حائضہ ہوجانے کی خبر سن کر آپ ﷺ نے ازراہ محبت ان کے لیے عقری حلقی کے الفاظ استعمال فرمائے اس سے بھی صنف نازک کے لیے آپ ﷺ کی شفقت ٹپکتی ہے، نیز یہ بھی کہ مفتی حضرات کو اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری ہے کہ حدود شرعیہ میں ہر ممکن نرمی اختیار کرنا اسوہ نبوت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1787  
1787. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں ے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ! لوگ دو عبادتیں (حج وعمرہ) کر کے واپس جائیں گے جبکہ میں صرف ایک عبادت (حج) کرکے واپس جارہی ہوں؟ تو ان سے کہا گیا: آپ انتظار کریں۔ جب حیض سے پاک ہوجائیں تو تنعیم جا کر عمرے کا احرام باندھیں پھر فلاں جگہ ہمارے پاس آئیں لیکن عمرے کا ثواب تمہارے خرچ یا تمہاری مشقت کے مطابق دیاجائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1787]
حدیث حاشیہ:
ابن عبدالسلام نے کہا کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، بعض عبادتوں میں دوسری عبادتوں سے تکلیف اور مشقت کم ہوتی ہے، لیکن ثواب زیادہ ملتا ہے، جیسے شب قدر میں عباد ت کرنا رمضان کی کئی راتوں میں عبادت کرنے سے ثواب میں زیادہ ہے یا فرض نماز یا فرض زکوٰۃ کا ثواب نفل نمازوں اور نفل صدقوں سے بہت زیادہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1787   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5329  
5329. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ سیدہ صفیہ‬ ؓ ا‬پنے خیمے کے دروازے پر پریشان کھڑی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''عقریٰ'' یا فرمایا ''حلقیٰ'' تو ہمیں روک دے گی۔ کیا تو نے قربانی کے دن طواف کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر کوچ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5329]
حدیث حاشیہ:
''عقریٰ حلقیٰ'' عرب میں پیار کے الفاظ ہیں اس سے بد دعا مقصود نہیں ہے۔
''عقریٰ'' یعنی اللہ تجھ کو زخمی کرے۔
حلقیٰ تیرے حلق میں زخم ہو۔
اس حدیث کی مطابقت باب سے یوں ہے کہ آپ نے صرف صفیہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے حائضہ ہونے کے بارے میں تسلیم فرمایا تو معلوم ہوا کہ خاوند کے مقابلہ میں بھی یعنی رجعت اور سقوط رجعت اورعدت گزر جانے وغیرہ ان امور میں عورت کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5329   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5548  
5548. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف پر حائضہ ہو چکی تھیں اور وہ رو رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ وہ چیز ہےجو اللہ تعالٰی نے آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دی ہے تم حاجیوں کی طرح اعمال حج ادا کرو مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ جب منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5548]
حدیث حاشیہ:
اور ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی بیویوں کو الگ الگ قربانی کرنے کا حکم نہیں فرمایا، تو جمہور کا مذہب ثابت ہو گیا۔
امام مالک اور ابن ماجہ اور ترمذی نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ میں نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کا کیا دستور تھا؟ انہوں نے کہا آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربانی کرتا اور کھاتا اور کھلاتا پھر لوگوں نے فخر کی راہ سے وہ عمل شروع کر دیا جو تم دیکھتے ہو جو خلاف سنت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5548   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6157  
6157. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حج سے واپسی کا ارادہ کیا تو خیمے کے دروازے پر سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و بہت غمناک دیکھا کیونکہ انہیں حیض آگیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کاٹی مونڈی۔۔۔ یہ قریش کا محاورہ ہے۔۔۔۔ اب تم ہمیں روکنا چاہتی ہو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے قربانی کے دن طواف زیارت کرلیا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں آپ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر سفر کا آغاز کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6157]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایسی مجبوری میں طواف وداع کی جگہ طواف افاضہ کافی ہو سکتا ہے۔
طواف افاضہ دس ذی الحجہ کو اور طواف وداع مکہ سے واپسی کے دن ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6157   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1733  
1733. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ جب ہم نے دسویں تاریخ کو طواف افاضہ کیا تو حضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا۔ نبی ﷺ نے جب ان سے اس چیز کا ارادہ کیاجوشوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اسے تو حیض آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ہمیں مدینہ واپس جانے سے روک دے گی؟ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں (صفیہ ؓ) نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیاتھا۔ آپ نے فرمایا: پھر کوچ کرو۔ حضرت قاسم عروہ اور اسود سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ صفیہ ؓ نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1733]
حدیث حاشیہ:
اس کو طواف الافاضہ اور طواف الصدر اور طواف الرکن بھی کہا گیا ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ طواف دن میں کیا تھا۔
حضرت امام بخاری ؒ نے حضرت ابوحسان کی حدیث لا کر احادیث مختلفہ میں اس طرح تطبیق دی کہ جابر اور عبداللہ بن عمر ؓ کا بیان یوم اول سے متعلق ہے اور حضرت ابن عباس کی حدیث کاتعلق بقایا دنوں سے ہے، یہاں تک بھی مروی ہے کہ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ الْبَيْتَ كُلَّ لَيْلَةٍ مَا أَقَامَ بِمِنًى یعنی ایام منیٰ میں آپ ﷺ ہر رات مکہ شریف آکر طواف الزیارۃ کیا کرتے تھے۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1733   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 305  
305. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بایں حالت نکلے کہ ہم حج کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہ کرتے تھے۔ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: کاش میں امسال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا: شاید تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اسے تو اللہ تعالیٰ نے تمام بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، اس لیے تم وہ تمام افعال کرتی رہو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا تاآنکہ تم پاک ہو جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:305]
حدیث حاشیہ:
سید المحدثین حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔
جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم ؒ فرماتے ہیں:
'' اعلم أن البخاري عقد بابا في صحیحه یدل علی أنه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائض۔
'' (تحفة الأحوذي، جلد: 1، ص: 124)
حضرت امام بخاری ؒ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قراءت سے روکا گیا ہو۔
گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے۔
جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11، ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے:
درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قراءت قرآن کی اجازت نہیں ہے۔
لیکن چونکہ حضرت امام بخاری ؒ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔
اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قراءت قرآن کو جائز رکھا ہے۔
ائمہ فقہاء میں سے حضرت امام مالک ؒ سے دوروایتیں ہیں:
ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقراء ت کی اجازت ہے اور طبری ؒ، ابن منذر ؒ اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔
حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں:
''تمسك البخاري ومن قال بالجواز غیرہ کالطبري وابن المنذر و داود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل أحیانه لأن الذکر أعم أن یکون بالقرآن أوبغیرہ الخ'' (تحفة الأحوذي، ج: 1، ص: 124)
یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے)
سے استدلال کیا ہے۔
اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔
مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کو قراء ت قرآن جائز نہیں۔
تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔
صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاء اسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور ﷺ نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہو کر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔
(إیضاح البخاري:
ج2، ص: 32)
(امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 305   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5329  
´اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ عورتوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحموں میں جو پیدا کر رکھا ہے اسے وہ چھپا رکھیں کہ حیض آتا ہے یا حمل ہے۔`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ، إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى بَابِ خِبَائِهَا كَئِيبَةً، فَقَالَ لَهَا:" عَقْرَى أَوْ حَلْقَى إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا، أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَانْفِرِي إِذًا . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمہ کے دروازے پر غمگین کھڑی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ «عقرى» یا (فرمایا راوی کو شک تھا) «حلقى» معلوم ہوتا ہے کہ تم ہمیں روک دو گی، کیا تم نے قربانی کے دن طواف کر لیا ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5329]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5329 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ} مِنَ الْحَيْضِ وَالْحَبَلِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ باب میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل کیا گیا ہے کہ عورتوں کے لئے جائز نہیں کہ اللہ نے جو ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں جبکہ تحت الباب رحم کے مطابق کوئی الفاظ حدیث میں موجود نہیں ہیں۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ تحت الباب جو حدیث پیش کی ہے اس پر غور کرنے سے مناسبت کا پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا قول ان کے حائضہ ہونے کے بارے میں قبول فرمایا تو اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خاوند کے مقابلے میں بھی رجعت، سقوط عدت اور حمل وغیرہ کے مسائل میں عورت کی بات کو قبول کیا جائے گا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«والمقصود من الاية أن أمر العدة لما دار على الحيض والطهر، والاطلاع على ذلك يقع من جهة النساء غالباً، جعلت المرأة مؤتمنة على ذالك، قال اسماعيل القاضي دلت الاية أن المرأة المعتدة مؤتمنة على رحمها من الحمل والحيض الا ان تاتي من ذالك لما يعرف كذبها فيه، وقد أخرج الحاكم فى المستدرك من حديث ابي بن كعب أن من الامانة ان ائتمنت المراة على فرجها .» [فتح الباري لابن حجر: 412/9]
آیت مبارکہ سے مقصود یہ ہے کہ عد ت کا معاملہ جب حیض اور طہر پر مبنی ہے اور اس کی اطلاع عورتوں کی جانب سے ہی میسر آتی ہے تو عورت کو (اس خبر پر) امین بنایا گیا ہے، اسماعیل قاضی کا کہنا ہے کہ آیت اسی امر پر دلالت کرتی ہے کہ عدت والی خاتون حمل اور حیض کے ضمن میں امین ہے۔، (یعنی اس کی بات کو قبول کیا جا ئے گا) سوائے اس کے کہ وہ صریحاً جھوٹ کا ارتکاب کرے جو واضح ہو جائے، امام حاکم رحمہ اللہ کی المستدرک میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ امانت میں سے (یہ بھی) ہے کہ عورت اپنی شرم گاہ کے بارے میں امین ہو۔

علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لما رتب النبى صلى الله عليه وسلم على مجرد قول صفية انها حائض تاخيره السفر أخذ منه تعدي الحكم الي الزوج، فتصدق المرأة فى الحيض والحمل باعتبار رجعة الزوج وسقوطها والحاق الحمل به .» [فتح الباري لابن حجر: 412/10]
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر کہ وہ حیض سے ہیں تاخیر سفر کا ارادہ فرما لیا تو اس سے تعدی الحکم الی الزوج بھی ماخوذ ہو گا تو حیض ہو یا حمل اس میں شوہر کے رجوع کے اعتبار سے خاتون کے دعووں کی تصدیق کرنا ہو گی، بعین اسی طرح سے سقوط کا معاملہ ہو یا حمل کا اس کے ساتھ الحاق کا اس میں بھی اس کی بات کا اعتبار ہو گا۔

صحیح بخاری بحاشیۃ السھارنفوری میں لکھا ہے کہ:
«كئية اي خزينة وهذا موضع الترجمة اذا يفهم منه أظهرت حيضها .» [صحيح بخاري بحاشية السهارنفوري: 761/10]

بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
عورت کے قول پر استنباط ہو گا حیض اور حمل کے مسائل پر، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرد صفیہ رضی اللہ عنہا کے قول پر سفر میں تاخیر فرمائی تھی، پس یہ اس بات پر دلالت ہے کہ یقیناًً عورت کی بات عدت حیض اور حمل میں معتبر ہوگی۔

لہٰذا ان تمام تفصیلات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں بنتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بارے میں صفیہ رضی اللہ عنہا کی بات پر سفر میں تاخیر فرمائی، جب حیض کے میں عورت کا قول معتبر ٹھہرا تو یقیناًً حمل، اسقاط اور عدت کے بارے میں بھی اس کے قول کو معتبر ٹھہرایا جائے گا، پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 118   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 305  
´حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی`
«. . . قَالَ: لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 305]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب دلالت کرتا ہے کہ حائضہ عورت حالت حج میں تمام ارکان کو پورا کرے سوائے نماز اور طواف کے، امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد بھی سمجھ میں آتی ہے کہ حائضہ قرآن کی تلاوت کر سکتی ہے، حدیث میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر ہرقل کی دلیل پیش کی جس میں آپ علیہ السلام نے قرآن مجید کی آیت لکھ کر ان کو بھیجی لازماً ہرقل کے بادشاہ نے اسے پڑھا اور وہ کفر کی حالت اور ناپاکی کی حالت میں تھا اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفر اور شرک کی نجاست کے باوجود اسے قرآن کی آیت لکھ کر بھیجیں اس کے برعکس مومنہ حالت حیض میں اگرچہ ظاہری ناپاکی میں ہے مگر کفر اور شرک کی ناپاکی سے بطریق اولیٰ کم ہے کیوں کہ وہاں ناپاکی ایمان نہ ہونے کہ وجہ سے ہے اور یہ ناپاکی عورت کی جسمانی ناپاکی ہو گی تو لہٰذا اس حالت میں بطریق اولیٰ قرآن پڑھنا درست ہو گا۔
◈ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جنبی کی تلاوت کا بھی استدلال کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ حیض حدث اکبر ہے جنابت سے، لہٰذا جب حیض کی حالت میں قرآن پڑھنا درست ٹھہرا تو کیوں کر حالت جنابت جو کہ حدث اصغر ہے اس میں قرآن پڑھنا درست نہ ٹھہرا؟ ديكهئے: [المتواريص 83]
ان تمام احادیث اور آثار کو جو امام بخاری رحمہ اللہ نے پیش فرمایا ہے یہی مقصود ہے کہ جنبی اور حالت حیض والی عورت قرآن مجید پڑھ سکتی ہے ان کو پڑھنے میں کوئی چیز مانع نہیں رکھتی کیوں کہ ہرقل بادشاہ کافر و مشرک تھا اور وہ جنبی کے حکم میں ہے جب اس کو قرآن لکھ کر بھیجا گیا اور اس کا قرآن پڑھنا درست ٹھرا تو حائضہ اور جنبی کا بھی قرآن پڑھنا درست ٹھرا۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قيل مقصود البخاري ذكر فى هذا الباب من الاحاديث والاثار ان الحيض وما فى معناه من الجنابة لا ينافي جميع العبادات» [فتح الباري ج1، ص537]
مقصود امام بخاری رحمہ اللہ کا ان تمام احادیث اور آثار سے یہ ہے کہ عورت کا حالت حیض میں اور جنبی کو حالت جنابت میں قرآن اور ذکر کرنا سب جائز ہے۔
لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم فرمانا کہ حائضہ تمام کام کرے حج میں سوائے طواف کے اور احادیث پیش کرنا کہ ہرقل نے قرآن کی آیت پڑھی مناسبت ہم نے بیان کیا کہ ہرقل جنابت کے حکم میں ہے جب وہ تلاوت کر سکتا ہے تو حائضہ کیوں کر نہیں۔
◈ علامہ کرمانی نے ایک اور بھی تطبیق پیش کی ہے کہ عورت کا حیض ہر ماہ آنا ہے اگر وہ قرآن نہ پڑھے گی تو بھول جائے گی۔ تفصيل كے لئے ديكهئے: [الكواكب الدراري شرح صحيح الباري ج2، ص167]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لئے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ:
◈ شیخ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اعلم ان البخاري عقد باباً فى صحيحه يدل على انه قائل بجواز قراءة القرآن للجنب والحائضة» [تحفةالاحوذي، ج1، ص124]
جان لو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں جو باب قائم فرمایا وہ اس مسئلہ پر دلالت ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ قائل ہیں جواز کے کہ جنبی اور حائضہ قرآن کریم کی قرأت کر سکتے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جس میں جنبی اور حائضہ کو قرأت سے روکا گیا ہو۔ گو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی کئی محدثین نے تصحیح بھی کی ہے۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلے میں نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک نہیں پہنچتی۔ اس لئے انہوں نے جنبی اور حائضہ کے لئے قرأت قرآن کو جائز رکھا۔ ائمہ فقہاء میں سے امام مالک رحمہ اللہ سے دو روایات ہیں۔ جو حائضہ اور نفاس والی خواتین کو قرآن پڑھنے سے روکتی ہیں مگر وہ روایات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی پہلی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: «عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وسلم لا يقرأ الجنب ولا الحائض شيئا من القرآن» [رواه ابوداؤد، رقم 229، سنن الترمذي، رقم: 146]
اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے اور وہ ضعیف ہے خصوصاً جب کہ وہ حجازیوں سے روایت کرے اور یہ روایت ان میں سے ہے۔ ديكهئے: [نيل الاوطار، شرح منتقي الاخبار، ج1، ص 293]
دوسری روایت ہے: «لا تقرا الحائض ولا نفساء من القرآن شيئاً» [رواه الدارقطني فى سنة: ج1ص121]
یعنی حائضہ اور نفاس والی قرآن سے کچھ نہ پڑھے اس کی سند میں محمد بن الفضیل ہے جو کہ متروک ہے اور اس کی طرف وضع کرنے کا حکم ہے۔
◈ امام بیہقی فرماتے ہیں:
«هَذَا الْاَثَرُ لَيْسَ بِقوِي» لہٰذا حائضہ اور نفساء کے قرآن نہ پڑھنے کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اسی لیے امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«والحديث هذا والذي بعده لا يصلحان للاحتجاج بهما على ذالك»
ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے روایات صحت کے اعتبار سے اس لائق نہیں کہ ان سے احتجاج اخذ کیا جائے۔ لہٰذا حائضہ اور نفساء اگر لمبے عرصے تک قرآن نہیں پڑھیں گی تو وہ بھول جائیں گے۔ ممکن ہے کہ یہ سبب بھی ہو کہ ان کی ممانعت کے لیے کوئی صحیح حکم کسی حدیث سے ثابت نہیں اور جہاں تک تعلق ہے جنبی کا تو اس وقت انتہائی مختصر ہے جیسے ہی اس نے غسل کیا وہ پاک ہو گیا جنبی کے بارے میں قرآن کی تلاوت نہ کرنے کی حدیث مسند ابی یعلی الموصلی میں موجود ہے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنبی قرآن نہ پڑھے۔ ديكهئے: [مسند ابي يعلي ج1، ص188۔ رجاله موثقون]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 146   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 303  
´عمرہ کی نیت کے ساتھ بعد میں حج کی نیت کرنا`
«. . . 223- وبه: أن ابن عمر خرج إلى مكة معتمرا فى الفتنة، فقال: إن صددت عن البيت صنعنا كما صنعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأهل بعمرة من أجل أن النبى صلى الله عليه وسلم كان أهل بعمرة عام الحديبية، ثم إن عبد الله بن عمر نظر فى أمره، فقال: ما أمرهما إلا واحد، فالتفت إلى أصحابه، فقال: ما أمرهما إلا واحد، أشهدكم أني قد أوجبت الحج مع العمرة، قال: ثم طاف طوافا واحدا، ورأى أن ذلك مجزئ عنه وأهدى. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فتنے (جنگ) کے زمانے میں عمرہ کرنے کے لئے مکہ کی طرف چلے تو فرمایا: اگر مجھے بیت اللہ سے روک دیا گیا تو ہم اس طرح کریں گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر انہوں نے اس وجہ سے عمرے کی لبیک کہی کہ حدبیبہ والے سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرے کی لبیک کہی تھی، پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے مسئلے میں غور کیا تو فرمایا: دونوں (عمر ے اور حج) کا تو ایک ہی حکم ہے، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرے کے ساتھ اپنے آپ پر حج لازم کر لیا ہے، پھر انہوں نے ایک طواف کیا اور یہ سمجھے کہ یہ کافی ہے اور قربانی کی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 303]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1806، ومسلم 1230، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ عمرے کی نیت کرنے والا بعد میں عمرے اور حج دونوں یعنی حجِ قِران کی نیت کرلے تو جائز ہے۔
➋ اگر راستہ خطرناک ہو تو بھی حج اور عمرے کے لئے بیت اللہ کا سفر کرنا جائز ہے۔
➌ اگر کوئی شخص حالتِ احرام میں عمرہ یا حج کرنے کی نیت سے مکہ آئے اور کسی عذر کی وجہ سے حرم سے روک دیا جائے تو وہ احرام کھولے اور ایک بکری ذبح کرکے فدیہ دے۔ بعد میں اسے اس عمرے یا حج کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ واللہ اعلم
➍ تمام امور میں طریقۂ نبوی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔
➎ مسائل میں خوب غور وخوض کے بعد فتویٰ دینا چاہئے۔
➏ اگر کسی مسئلے میں تحقیق بدل جائے تو سابقہ بات سے رجوع کرکے نئی تحقیق پر عمل کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 223   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 391  
´طواف افاضہ کے بعد عورت کے حائضہ ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو حیض آ گیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید وہ ہمیں روک لے گی، کیا اس نے تم لوگوں کے ساتھ طواف (افاضہ) نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (ضرور کیا تھا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تو نکلو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 391]
391۔ اردو حاشیہ:
➊ طواف افاضہ سے مراد دس ذوالحجہ کا طواف ہے جو حاجی پر فرض ہے۔ افاضہ کے معنی واپسی کے ہیں۔ چونکہ یہ عرفات سے واپسی کے بعد ہوتا ہے، اس لیے اسے طواف افاضہ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کو طواف زیارت اور طواف فرض بھی کہا جاتا ہے۔
➋ حج کی ادائیگی کے بعد گھر کو واپسی سے قبل بھی طواف کرنا ضروری ہے، اسے طواف وداع کہا جاتا ہے، مگر جو عورت طواف افاضہ کر چکی ہو، اس کے بعد اس کو حیض شروع ہو جائے اور گھر واپسی کی تاریخ آ جائے تو وہ معذور ہے، بغیر طواف و داع کیے گھر واپس جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 391   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 243  
´حائضہ کو احرام کے غسل کے وقت چوٹی کھولنے کا حکم۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے تو میں نے عمرہ کا احرام باندھا، پھر میں مکہ پہنچی تو حائضہ ہو گئی، تو میں نہ خانہ کعبہ کا طواف کر سکی، نہ صفا و مروہ کے بیچ سعی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا سر کھول لو، کنگھی کر لو، حج کا احرام باندھ لو، اور عمرہ چھوڑ دو، چنانچہ میں نے (ایسا ہی) کیا، تو جب ہم نے حج پورا کر لیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا (وہاں سے میں عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ آئی اور) میں نے عمرہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرے اس عمرہ کی جگہ ہے (جو حیض کی وجہ سے تجھ سے چھوٹ گیا تھا)۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: ہشام بن عروہ کے واسطے سے مالک کی یہ حدیث غریب ہے، مالک سے یہ حدیث صرف اشہب نے ہی روایت کی ہے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 243]
243۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اشہب نے (اس حدیث میں امام مالک کا استاذ ابن شہاب زہری کے ساتھ ہشام بن عروہ کو بھی بتلایا ہے جب کہ عام رواۃ اس روایت میں امام مالک کا استاذ صرف زہری ہی کو بتاتے ہیں۔ جب کسی راوی کی تائید کوئی اور ساتھی نہ کرے تو اس کی روایت کو غریب کہا جاتا ہے۔
➋ حیض کی حالت میں چونکہ بیت اللہ میں داخلہ منع ہے، لہٰذا حائضہ عورت کو طواف منع ہے اور سعی چونکہ طواف کے تابع ہے، اس لیے وہ بھی منع ہے۔
➌ تنعیم مکہ سے مدینہ منورہ کے راستے پر قریب ترین حل ہے، یعنی یہاں حرم ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ خصوصی حکم فرمایا کہ وہ تنعیمم سے احرام باندھ کر آجائیں اور عمرہ کر لیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حیض کی وجہ سے عمرہ رہ گیا تھا۔ یہ اجازت ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ وہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ جائے اور عمرہ کر لے جیسا کہ آفاق سے جانے والے بہت سے حاجی ایسا کرتے ہیں اور بعض علماء اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ جواز محل نظر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ دوبارہ عمرے کے لیے میقات پر جا کر وہاں سے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے۔ یا پھر مذکورہ حدیث کے پیش نظر تنعیم سے احرام باندھنے کی یہ اجازت صرف ان خواتین کے لیے ہے جو مخصوص ایام کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی ہوں۔ واللہ أعلم۔
➍ چونکہ حج کا احرام کئی دن جاری رہتا ہے، لہٰذا مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح غسل کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنگی نہ ہو۔ اس غسل کا حیض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صفائی کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر محرم کے لیے مستحب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 243   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 291  
´محرم عورت جب حائضہ ہو جائے تو کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج کرنا تھا، جب مقام سرف آیا تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، اور اس وقت میں رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ عزوجل نے آدم زادیوں کے لیے مقدر کر دیا ہے، تو وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے اس کے کہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 291]
291۔ اردو حاشیہ:
➊ چونکہ حیض کی حالت میں، عورت کے لیے مسجد میں ٹھہرنا منع ہے اور طواف مسجد میں ہوتا ہے، لہٰذا طواف سے روکا گیا ہے۔ سعی بھی طواف کے تابع ہے، وہ بھی منع ہے۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی عورتوں کی طرف سے گائے ذبح کرنا نفل ہو گا کیونکہ حج افراد کرنے والے پر قربانی فرض نہیں۔ ممکن ہے، بعض نے حج کے ساتھ عمرہ بھی کیا ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 291   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 349  
´حیض کی شروعات کا بیان اور کیا حیض کو نفاس کہہ سکتے ہیں؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارا مقصد صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا بات ہے؟ کیا تم حائضہ ہو گئی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر مقدر کر دیا ہے ۱؎، اب تم وہ سارے کام کرو، جو حاجی کرتا ہے، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 349]
349۔ اردو حاشیہ:
بَنَاتِ آدَمَ سے استدلال ہے کہ حیض شروع ہی سے عورتوں پر مقرر ہے جب کہ حضرت ابن معسود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً (ان کا قول) منقول ہے کہ حیض بنی اسرائیل کی عورتوں پر مسلط کیا گیا تھا۔ دیکھیے: [فتح الباري: 519/1]
ان کے مابین تطبیق یوں ممکن ہے کہ ابتدا تو حضرت حوا علیہاالسلام ہی سے ہوئی مگر بنی اسرائیل کے دور میں کچھ اضافہ کر دیا گیا اور یہ کوئی بعید نہیں۔ واللہ أعلم۔
«أَنَفِسْتِ» اس جملے میں نفاس سے حیض مراد ہے۔ تشبیہا نفاس کہا گیا۔ باب کا دوسرا جزو یہاں سے ثابت ہوا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 349   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2742  
´تلبیہ کہتے وقت حج یا عمرے کا نام نہ لینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم نکلے ہمارے پیش نظر صرف حج تھا۔ جب ہم سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں رو رہی تھی، آپ نے پوچھا: کیا تجھے حیض آ گیا ہے میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں (عورتوں) پر لکھ دی ہے، تم وہ سب کام کرو جو احرام باندھنے والے کرتے ہیں، البتہ بیت اللہ طواف نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2742]
اردو حاشہ:
(1) سرف کے مقام پر پہنچے۔ یہاں حدیث میں اختصار ہے کہ ہماری نیت تو حج کی تھی مگر آپ نے قربانی نہ لانے والے افراد کو حج کا احرام عمرے میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ میں نے بھی حج کا احرام عمرے میں تبدیل کر لیا مگر اب حیض شروع ہوگیا۔ اس وجہ سے سیدہ عائشہؓ کو پریشانی لاحق ہوئی تو رسول اللہﷺ نے مذکورہ طریقے کی وضاحت فرما کر پریشانی دور فرما دی۔
(2) جو دوسرے محرم کریں۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جو محرم کرتا ہے، وہ تو بھی کر۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2742   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2805  
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، اور ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ آئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لوگ ہدی لے کر نہیں آئے تھے انہیں احرام کھول دینے کا حکم دیا تو جو ہدی نہیں لائے تھے حلال ہو گئے، آپ کی بیویاں بھی ہدی لے کر نہیں آئیں تھیں تو وہ بھی حلال ہو گئیں، تو مجھے حیض آ گیا (جس کی وجہ سے) میں بیت اللہ کا طو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2805]
اردو حاشہ:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 2764، 2765۔ باقی رہا باب والا مسئلہ کہ کیا ہر حج کے احرام والا جس کے ساتھ قربانی نہ ہو، عمرہ کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ حلال ہو سکتا ہے، یہی بات درست ہے۔ امام احمد اور اہل ظاہر اسے اب بھی جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض محققین کے نزدیک احرام حج والا مکہ میں آئے تو لازماً اس کے حج کا احرام عمرے میں بدل جائے گا اور اسے حلال ہونا ہی پڑے گا، وہ چاہے یا نہ چاہے۔ تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے کیونکہ قرآن مجید میں اس کی صریح اجازت ہے اور خطاب بھی عام ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2805   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1743  
´حائضہ عورت حج کا تلبیہ پکارے اور احرام باندھ لے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا (ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی) کو مقام شجرہ میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ (اسماء سے کہو کہ) وہ غسل کر لے پھر تلبیہ پکارے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1743]
1743. اردو حاشیہ: مقام شجرہ سےمراد ذوالحلیفہ یا البیداء ہے جو اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1743   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث641  
´حائضہ عورت غسل کیسے کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو ۱؎، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا: اپنا سر کھول لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 641]
اردو حاشہ:
(1)
سر کھولنے سے مراد یہ ہے کہ گوندھے ہوئے بال کھول کر سر دھویا جائے۔
یہ حکم غسل جنابت میں نہیں ہے۔ (دیکھیے حدیث: 604، 603)

(2)
بعض حضرات صحیح مسلم میں وارد الفاظٰ (فَأَنْقُضُهُ لِلْحَيْضَةِ وَالْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ لَا) (صحيح مسلم، الحيض، باب حكم ضفائر المغتسلة، حديث: 330)
سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت کے لیے غسل حیض میں بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے لیکن صاحب عون اور شیخ البانی ؒ نے صراحت کی ہے کہ صحیح مسلم کے ایک طریق میں (الحیضة)
کا جو اضافہ ہے وہ شاذ ہے اصل روایت (الحیضة)
 کے بغیر ہی محفوظ ہے۔ دیکھیے: (عون المعبود، الطھارة، باب المرأۃ ھل تنقص شعرھا عند الغسل، والصحیحة للألبانی، حدیث: 188)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 641   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2911  
´نفاس اور حیض والی عورتیں حج کا تلبیہ پکار سکتی ہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو مقام شجرہ میں نفاس آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اسماء سے کہیں کہ وہ غسل کر کے تلبیہ پکاریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2911]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مقام شجرہ سے مراد ذوالحليفه ہے جو اہل مدینہ کا میقات ہے اس جگہ کو الشجره کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت وہاں پر ایک درخت تھا۔
حضرت اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ہاں اس مقام پر حضرت محمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی تھی۔

(2)
حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ کے بطن سے پیدا ہونے والا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہ بیٹا حضرت اسماء کے، جناب علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کے بعد انھی کے زیر تربیت اور زیر پرورش رہا، بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں مصر کا والی بھی بنایا تھا۔

(3)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ ام المومینین حضرت میمونہ بنت حارث کی مادری بہن ہیں۔
پہلے یہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
جنگ موتہ میں ان کی شہادت کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔
ان کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کیا۔

(4)
حیض ونفاس والی عورت بھی میقات سے احرام باندھے گی۔
نیز احرام کے موقع پر حیض اور نفاس والی عورت کو بھی غسل کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2911   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2963  
´حائضہ سوائے طواف کے حج کے سارے مناسک ادا کرے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج کرنا تھا، جب ہم مقام سرف میں تھے یا سرف کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ کیا حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم زادیوں پر لکھ دیا ہے، تم حج کے سارے اعمال ادا کرو، البتہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2963]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حج کے اعمال بنیادی طور پر مختلف مقامات پر (منی مزدلفہ عرفات میں)
ٹھرنے اور ذکر و دعا پر مشتمل ہیں اور حیض و نفاس ان میں رکاوٹ نہیں۔
 
(2)
طواف کعبہ میں حیض اور نفاس رکاوٹ بنتا ہے۔
لیکن ان میں وقت کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

(3)
اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں انسانی ضرورتوں اور کمزوریوں کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

(4)
قربانی میں جتنے زیادہ جانور ممکن ہوں قربان کرنا جائز ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی طرف سے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2963   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3000  
´تنعیم سے عمرہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبال کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا تلبیہ پکارتا، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہوا کہ عرفہ کا دن آ گیا، اور میں حیض سے تھی، عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3000]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
تنعیم ایک مقام ہے جو مکہ سے قریب ترین ہے۔
آج کل اسے مسجد عائشہ کہتے ہیں۔

(2)
نبی اکرمﷺ تیرہ ذوالحجہ کو رمی جمرات سے فارغ ہوکر منی سے روانہ ہوئے اور وادی ابطح یعنی خیف بنی کنانہ میں ٹھہرے۔
اسی کو وادئ خصب بھی کہتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے اس دن ظہر عصر مغرب اور عشاء کی نمازیں اسی مقام پر ادا کیں۔
اور عشاء کے بعد کچھ آرام فرما کر مکہ مکرمہ تشریف لے گئےاور طواف وداع ادا فرمایا۔ (الرحیق المختوم ص: 620)

(3)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن عذر حیض کی وجہ سے عمرہ کیے بغیر حج کا احرام باندھنا پڑا۔
اس طرح کی صورت حال میں عمرے کے اعمال اد ا کیے بغیر حج اور عمرہ دونوں ادا سمجھے جاتے ہیں۔

(4)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ وہ باقاعدہ عمرہ بھی ادا کریں چنانچہ رسول اللہﷺ نے انہیں ان کے بھائی کے ساتھ عمرے کے لیے بھیج دیا۔
یہ رسول اللہﷺ کا اپنی زوجہ محترمہ سے حسن سلوک کا اظہار تھا۔

(5)
تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر آ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔
اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی (حائضہ)
عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے چھوٹا عمرہ قرار دیتے ہیں۔
یہ رواج یا استدلال بے بنیاد ہے۔

(6)
حج کے بعد عمرہ کرنے سے حج تمتع نہیں بنتا بلکہ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے حج تمتع بنتا ہے۔
پہلے عمرے کی وجہ سے قربانی دی گئی اس دوسرے عمرے کی وجہ سے کوئی قربانی نہیں دی گئی۔
نہ اس کا متبادل فدیہ روزوں کی صورت میں ادا کیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3000   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3073  
´حائضہ طواف وداع سے پہلے جا سکتی ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو ہم نے کہا: انہیں حیض آ گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «عقرى حلقى» ! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑے گا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ دسویں کو طواف افاضہ کر چکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو پھر ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ وہ روانہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3073]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طواف افاضہ حج کا رکن ہے جو دس ذی الحجہ کو ادا کیا جاتا ہے۔

(2)
اگر کوئی عورت حیض کی وجہ سے طواف افاضہ دس ذوالحجہ کو نہ کرسکےتو جب پاک ہو تب کرلے۔

(3)
جس عورت نے طواف افاضہ کرلیا ہو۔
وہ اگر مکہ سے واپسی کے دن حیض سے ہو تواسے طواف وداع معاف ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانا:
بانجھ ہو! سر مونڈا جائے۔
! بد دعا کے طور پر نہیں بلکہ عربوں کے عام محاورے کے مطابق پریشانی کا اظہار ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3073   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 945  
´حائضہ عورت حج کے کون کون سے مناسک ادا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 945]
اردو حاشہ: 1؎:
بخاری ومسلم کی روایت میں ہے' أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت' یعنی حج کا تلبیہ پکارو اوروہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:203  
فائدہ:
حالت حیض میں بیت اللہ کا طواف منع ہے۔ طواف الوداع واجب ہے لیکن حائضہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 203   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2918  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور اس وقت ہمارا خیال صرف حج کرنے کا تھا، حتی کہ جب ہم مقام سرف پر پہنچے یا اس کے قریب پہنچے، مجھے ماہواری آ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیا تجھے نفاس یعنی حیض آ گیا ہے، میں نے جواب دیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایسی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2918]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب مدینہ سے نکلے تھے تو عربوں کے دستور کے مطابق سب کی نیت حج کرنے کی تھی تبدیلی آگے جا کر کرنی پڑی،
جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حج کے ساتھ عمرہ کرنے کا حکم وحی خفی کے ذریعہ نازل ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2918   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2919  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج پیش نظر تھا، حتی کہ ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میری خواہش ہے کہ میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہوا؟ شاید تمہیں حیض شروع ہو گیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2919]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

طواف افاضہ جس کو طواف زیارت اور طواف رکن بھی کہا جاتا ہے،
اس سے مراد وہ طواف جو دس ذوالحجہ کو رمی جمار،
قربانی اور تحلیق یا تقصیر کرنے کے بعد منی سے مکہ مکرمہ آ کر کیا جاتا ہے۔

جن لوگوں کے پاس ہدی نہیں تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو حکم دیا کہ وہ اپنے حج کو فسخ کر کے،
اس کو عمرہ بنا لیں،
اب اس میں اختلاف ہے کہ کیا حج کے لیے احرام باندھنے والا مکہ پہنچ کر،
اپنے حج کو عمرہ میں بدل سکتا ہے،
یا نہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج کا احرام باندھ کر اسے فسخ کر کے عمرہ بنا لینا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ خاص تھا اور اب اس کی اجازت نہیں ہے لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ،
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے نزدیک جو انسان ہدی ساتھ لے کر نہیں گیا،
اسے حج کو عمرہ سے تبدیل کرنا ہو گا۔

اگر انسان مکہ مکرمہ پہنچ کروہاں سے عمرہ کرنا چاہتا ہے تو وہ جمہور علماء کے نزدیک حرم سے باہر جا کر حل سے احرام باندھے گا اگر حرم کے اندر سے ہی احرام باندھ کر عمرہ کرے گا تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور قول کے مطابق اس کا عمرہ صحیح ہو گا لیکن ترک میقات کی وجہ سے دم (قربانی)
لازم آئے گا دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا یہ عمرہ صحیح نہیں ہے وہ حرم سے باہر جا کر نئے سرے سے احرام باندھے اور عمرہ کرے جمہور کے نزدیک عمرہ صحیح ہے۔
لیکن چونکہ خارج حرم نہیں گیا اس طرح حل اور حرم جمع نہیں ہوئے اس لیے دم (خون)
لازم ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تنعیم سے عمرہ کرنا لازم ہے اس کے بغیر عمر ہ نہیں ہو گا باقی آئمہ کے نزدیک حل کے کسی مقام سے بھی عمرہ کر سکتا ہے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں عمرہ اس صورت میں ہے جب انسان باہر سے مکہ میں داخل ہو،
مکہ سے باہر نکل کر عمرہ کرنا سوائے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے(اس حج والے عمرہ کے)
کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں بے شمار لوگ تھے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا کسی نے بھی حج سے فراغت کے بعد عمرہ نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال میں ایک ہی عمرہ کیا،
ایک سال میں دو عمرے نہیں کیے اس لیے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سال میں ایک ہی عمرہ کرنا چاہیے۔
لیکن جمہور کے نزدیک زیادہ عمرے بھی ہو سکتے ہیں لیکن آج کل جو رواج پڑ گیا ہے کہ روزانہ حرم سے باہر تنعیم میں آتے ہیں اور عمرہ کرتے ہیں اور اس کے لیے چند بال کاٹ لیتے ہیں اس کا تو کوئی ثبوت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2919   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2927  
حضرت ام المومنین (عائشہ) رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ دو (مستقل) عبادتیں کر کے واپس جائیں گے اور میں ایک عبادت (مستقل طور پر) کر کے لوٹوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انتظار کرو، جب تم پاک ہو جاؤ تو تنعیم کی طرف نکل جانا اور وہاں سے احرام باندھ لینا اور پھر ہمیں فلاں فلاں جگہ کے قریب آ ملنا۔ (راوی کہتے ہیں، میرا خیال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کل) لیکن اس کا ثواب تمہاری مشقت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2927]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج اور عمرہ کے اجرو ثواب میں تکلیف و مشقت اور نفقہ و خرچہ میں کمی و بیشی کے نتیجہ میں اجرو ثواب میں کمی و بیشی ہوتی ہے جو لوگ دور دراز سے جا کر محنت و مشقت برداشت کر کے عمرہ کرتے ہیں یا حج کرتے ہیں ان کو اجرو ثواب زیادہ ملتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2927   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2929  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعلیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے اور ہمارا تصور یہی تھا کہ ہم حج کریں گے، جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی لوگوں کو جو ہدی ساتھ نہیں لائے تھے احرام کھول دینے کا حکم دے دیا، وہ بیان کرتی ہیں کہ جو لوگ ہدی ساتھ نہیں لائے تھے، انہوں نے احرام کھول دیا، (حلال ہو گئے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہدی نہیں لائی تھیں، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2929]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عَقْريٰ:
حَلْقی کے لغوی معانی مختلف ہو سکتے ہیں،
لیکن عرب لوگ یہ الفاظ اس قسم کے مواقع پر لغوی معانی کے اعتبار سے استعمال نہیں کرتے،
محض تکیہ کلام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
فوائد ومسائل:

اگر کسی عورت کو مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے یا طواف کا آغاز کرنے سے پہلے حیض شروع ہو جائے تو وہ ابتدائی طواف (طواف قدوم)
نہیں کرے گی اور صفا مروہ کی سعی چونکہ بیت اللہ کے طواف کے بعد کرنی ہوتی ہے اس لیے وہ سعی بھی نہیں کر سکے گی ان کے علاوہ حج کے تمام مناسک (اعمال)
بجالائے گی،
اسی طرح اگر عورت کو طواف افاضہ (جو دس 10ذوالحجۃ کو کیا جاتا ہے)
کے بعد حیض شروع ہو جائے تو اسے آخری طواف (طواف وداع کے لیے رکنا ضروری نہیں ہے)
وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہو سکے گی۔

صحیح صورت حال یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ سے فارغ ہو کر مکہ سےمَحْصَبْ کی طرف چڑھ رہی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم محصب سے مکہ کی طرف اتر نے کے لیے تیار ہو چکے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہنچنے پر روانہ ہو گئے جیساکہ (حدیث نمبر123)
میں گزرچکا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2929   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3228  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کرنے کا ارادہ کیا، تو اچانک دیکھا، کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے خیمہ کے دروازہ پر کبیدہ خاطر، غمزدہ کھڑی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سر منڈی تو ہمیں روک لے گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے قربانی کے دن طواف افاضہ کیا تھا؟ اس نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو چل۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3228]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان مختلف روایات میں تضاد نہیں ہے،
مجموعی طور پر تمام صورت حال پیش آئی تھی،
سب ازواج مطہرات کو اس واقعہ کا علم تھا،
سب نے تصدیق کی تھی،
اس لیے بعض دفعہ کسی کا انفرادی نام لیا گیا اور بعض دفعہ سب کا مشترکہ طور پر۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3228   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:305  
305. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بایں حالت نکلے کہ ہم حج کے علاوہ کسی چیز کا ذکر نہ کرتے تھے۔ جب ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ نے پوچھا: تم کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا: کاش میں امسال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا: شاید تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اسے تو اللہ تعالیٰ نے تمام بناتِ آدم پر لکھ دیا ہے، اس لیے تم وہ تمام افعال کرتی رہو جو حاجی کرتا ہے، البتہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرنا تاآنکہ تم پاک ہو جاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:305]
حدیث حاشیہ:

بظاہر عنوان کا یہ مقصد ہے کہ حائضہ بحالت حیض حج کے تمام ارکان ادا کرسکتی ہے۔
لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتی اور نہ اسے صفا مروہ کی سعی کرنے کی اجازت ہے، مگر امام بخاری ؒ نے جو آثار پیش کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک حائضہ اور جنبی كو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت ہے۔
اس سے پہلے کچھ تمہیدات بیان کی تھیں:
۔
قرب نجاست میں قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔
۔
حائضہ کی گود میں قرآن پڑھنے کی اجازت ہے۔
۔
حائضہ عورت جزدان کی ڈوری سے قرآن اٹھا سکتی ہے۔
اب اس عنوان میںحدیث دیگراں کے طور پر اپنے مقاصد کو بیان فرمایا ہے کہ نہ حیض قرآن کریم کی تلاوت سے باعث رکاوٹ ہے اور نہ بحالت جنابت ہی اس کی ممانعت ہے۔
جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ، ابن بطال ؒ اور ابن رشید ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حدیث عائشہ ؓ سے یہ دلیل لی ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیےقرآن مجید کی تلاوت جائز ہے، کیونکہ ممانعت کے سلسلے میں مناسک حج میں سے صرف طواف کا ذکر ہے۔
یعنی طواف کے علاوہ دیگر مناسک حج ادا کرسکتی ہے۔
اور طواف بھی اس لیے منع فرمایا کہ یہ بھی ایک مخصوص نماز ہے، باقی اعمال حج ذکر، تلبیہ اور دعا پر مشتمل ہیں، حائضہ عورت کو ان میں سے کسی کی ممانعت نہیں ہے، اسی طرح جنبی کے لیے بھی منع نہیں ہیں، کیونکہ حائضہ کی حالتِ حدث میں زیادہ غلظت پائی جاتی ہے۔
جب حائضہ کے لیے یہ جائز ہے تو جنبی کے لیے بالاولیٰ جائز ہونا چاہیے۔
جب ذکر اللہ جائز ہے تو تلاوت بھی جائز ہونی چاہیے، کیونکہ ان میں کوئی فرق نہیں۔
اگرحائضہ اورجنبی کے لیے تلاوت قرآن کی ممانعت امرتعبدی ہے تو یہ دلیل خاص کا محتاج ہے۔
اس کی ممانعت کے متعلق جو احادیث وارد ہیں وہ امام بخاری ؒ کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچتیں۔
اگرچہ مانعین کے نزدیک یہ احادیث وارده مجموعی حیثیت سے حجت بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر کی تاویل کی جاسکتی ہے۔
(فتح الباري: 529/1)

امام بخاری ؒ حائضہ اور جنبی کے لیے جوازقراءت قرآن کا موقف اختیار کرنے میں منفرد نہیں۔
اسلاف میں سے متعدد حضرات، مثلاً:
امام طبری ؒ، ابن منذر ؒ اور داود و دیگر کے نزدیک جنبی اور حائضہ کے لیے قراءت قرآن کی اجازت ہے، لیکن ان حضرات کے پاس اس کے جواز کے لیے کوئی صریح اور واضح دلیل نہیں ہے، بلکہ احادیث وآثارکے اطلاقات وعمومات سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے، لیکن اطلاق وعموم مانعین جواز کے خلاف اس لیے حجت نہیں بن سکتا کہ مخصوص حکم کے سامنے یہ عمومات واطلاقات کارآمد نہیں ہوسکتے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے جن آثار سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے، اگرچہ ان سب میں نزاع و بحث ہوئی ہے جس کا ذکرطوالت کا باعث ہے۔
البتہ امام بخاری کے طرز تصرف سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان سے جواز قراءت ہی کا اردہ کررہے ہیں۔
جمہور کی طرف سے منع تلاوت کے لیے حضرت علی ؓ سے مروی حدیث کو پیش کیا جاتاہے:
رسول اللہ ﷺ کو قرآن مجید پڑھنے پڑھانے سے جنابت کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 229)
اس روایت کو امام ترمذی ؒ اورامام ابن حبان ؒ نے صحیح کہا ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نے اس کے کچھ راویوں کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت حسن کی قسم سے ہے اور دلیل کے طور پیش ہونےکی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیکن کہا گیا ہے کہ یہ استدلال محل نظر ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ عمل مجرد ہے جو دوسروں پر حرام ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
امام طبری ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ مانعین اور قائلین کے دلائل کے پیش نظر اسے اکمل پر محمول کیاجائے گا، یعنی بہتر ہے کہ ایسی حالت میں قراءت سے پرہیز کیا جائے، تاہم جواز کے لیے گنجائش ہے۔
وہ حدیث جس میں ہے کہ حائضہ اور جنبی قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی تلاوت نہیں کرسکتے، تمام طرق سے ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔
(فتح الباري: 530/1)

امام بخاری ؒ نے آخری مرفوع حدیث، حدیث عائشہ ؓ پیش کی ہے جسے پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے۔
اس میں ہے کہ تمھیں بیت اللہ کے طواف کے علاوہ ہرچیز کی اجازت ہے۔
امام بخاری ؒ کا استدلال یہی ہے کہ حائضہ طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کرسکتی ہے، ان مناسک میں تلبیہ، ذکر اور دعائیں وغیرہ ہیں جن میں قرآن مجید بھی ہے۔
جب حائضہ کو اجازت ہے تو جنبی کو بالاولیٰ تلاوت قرآن کی اجازت ہونی چاہیے۔
لیکن ہم عرض کریں گے کہ قراءت قرآن بطوردعا اورقراءت قرآن بطور تلاوت ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
بطوردعا اور ذکر قرآن کی آیات پڑھنے میں کسی کو اختلاف نہیں۔
اختلاف یہ ہے کہ قرآن مجید کو تلاوت کے طور پر حائضہ اور جنبی کے لیے پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں۔
جمہور کے ہاں اس کی اجازت نہیں ہے۔
حضرت امام بخاری کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قراءت قرآن سے روکا گیا ہو، اس لیے انھوں نے ان کے لیے تلاوت قرآن کو جائز رکھا ہے، اگرچہ حکم امتناعی پر مشتمل متعدد روایات ہیں، بعض محدثین سے ان کی تصحیح بھی منقول ہے، لیکن دوسرے علماء کے نزدیک درجہ حسن کی روایات موجود ہیں۔
ان متعدد روایات میں قدر مشترک یہی مضمون ہے کہ حائضہ اورجنبی کے لیے قراءت قرآن کی اجازت نہیں۔
بہرحال مسئلہ زیربحث میں دونوں ہی موقف ہیں۔
امام بخاری ؒ کے ہم نواؤں میں امام ابن حزم ؒ، امام ابن تیمیہ ؒ، امام ابن القیم ؒ، وغیرہ جیسے اساطین علم اور ائمہ اعلام ہیں۔
اس لیے اس موقف کو بھی دلائل کے اعتبار سے بےوزن قرارنہیں دیا جاسکتا۔
دوسرا موقف احتیاط پر مبنی ہے اور اس کے قائلین تعداد میں زیادہ ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 305   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:316  
316. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حجۃ الوداع میں احرام باندھا تو میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے حج تمتع کی نیت کی تھی اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لائے تھے۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا کہ انہیں حیض آ گیا اور شب عرفہ تک پاک نہ ہو سکیں۔ تب انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ عرفہ کی رات ہے اور میں نے عمرے کا احرام باندھ کر تمتع کا ارادہ کیا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنا سر کھول کر کنگھی کر لو اور اپنے عمرے کے اعمال کو موقوف کر دو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ اور جب میں حج سے فارغ ہو گئی تو آپ نے شب محصب (میرے بھائی) عبدالرحمٰن ؓ کو حکم دیا تو وہ، میرے اس عمرے کے بدلے جس کا میں نے احرام باندھا تھا، مجھے مقام تنعیم سے عمرہ کرا لائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:316]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ غسل حیض کی امتیازی حیثیت کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں، اس سے پہلے بتایا تھا کہ غسل حیض کے وقت کستوری کا استعمال غسل جنابت سے مابہ الامتیاز ہے اور اس عنوان میں ثابت کیا کہ غسل حیض کے وقت جنابت کے برعکس سر کے پراگندہ بالوں کی پراگندگی کو کنگھی کے ذریعے سے دور کرنا ہوگا، تاکہ انھیں دھونے میں آسانی رہے۔
آئندہ باب میں بالوں کی مینڈھیوں کو کھولنے کا ذکر ہوگا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک غسل حیض کے وقت نقض راس (سر کے بالوں کا کھولنا)
ضروری ہے، جبکہ غسل جنابت میں ان کا کھولنا ضروری نہیں۔
جیسا کہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا کہ میں اپنے بالوں کی بہت مینڈھیاں کرتی ہوں، کیا مجھے غسل جنابت کے وقت انھیں کھولنا ہو گا؟ آپ نے فرمایا:
نہیں (صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 744 (330)
البتہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ اس معاملے میں سختی کیا کرتے تھے، وہ عورتوں کو غسل جنابت کے وقت بھی سر کھولنے کا حکم دیتے تھے۔
رد عمل کے طور پر حضرت عائشہ ؓ فرماتیں کہ وہ سر کھولنے کے بجائے سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ رسول اللہ ﷺ اور میں (اکٹھے مل کر)
ایک ہر برتن سے غسل کیا کرتے تھے اور میں اپنے سر پر تین بار ہی پانی بہاتی تھی۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 747 (331)
صحیح مسلم ہی کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت اُم سلمہ ؓ کو فرمایا تھا کہ تمھیں اپنے سر پر صرف تین چلو پانی ڈال لینا کافی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 744 (330)
امام بخاری ؒ کے نزدیک بالوں کے متعلق تخفیفی حکم غسل جنابت میں ہے، غسل حیض میں نہیں، غسل حیض میں بالوں کو کھول کر ان میں کنگھی کرنی ہوگی، لیکن جمہور اسے مستحب کہتے ہیں، کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اُم سلمہ ؓ نے غسل جنابت اور غسل حیض دونوں کے متعلق پوچھا تھا کہ ان میں بالوں کا کھولنا ضروری ہے؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ نہیں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 745 (330) (بعض علماء نے اس روایت میں (والحیضة)
کے الفاظ کو شاذ قراردیا ہے اور یہی بات راجح ہے۔
اس لیے جمہور کا استدلال درست نہیں۔
جمہور کے نزدیک غسل جنابت اور غسل حیض میں کوئی فرق نہیں، بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر بالوں کو کھولے بغیر یہ کام ہو جائے تو انھیں کھولنے کی ضرورت نہیں۔
اگر بغیر کھولے جڑوں تک پانی نہ پہنچ سکے تو کھولنا ضروری ہے، ہمارے نزدیک صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح ہے، جس میں غسل حیض کے وقت بالوں کو کھولنے کا ذکر ہے۔
واضح رہے کہ حدیث الباب میں غسل کا ذکر نہیں ہے، لیکن عنوان میں امام بخاری نے غسل کی قید لگائی ہے، ان کے نزدیک بالوں کو کھولنا اور ان میں کنگھی کرنا غسل سے کنایہ ہے یا انھوں نے دوسری روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں غسل کا ذکر ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2937 (1213)
اب دو صورتیں ہیں۔
اس غسل کو حیض ہی سے متعلق قراردیا جائے، اگرچہ حیض ابھی ختم نہیں ہوا، تاہم غسل نجاست کی تخفیف و تقلیل کی غرض سے ایسا کیا جا سکتا ہے۔
غسل احرام کو سنت تسلیم کیا جائے جس میں جسم کی نظافت وصفائی پیش نظر ہوتی ہے۔
غسل احرام سنت کے درجے میں ہے۔
اگر اس کی نظافت و صفائی کی وجہ سے غسل کے وقت بال کھولنے اور ان میں کنگھی کرنے کی ضرورت ہو تو غسل حیض میں بدرجہ اولیٰ اس ضرورت کو تسلیم کرنا پڑے گا، صفائی اور پاکیزگی کا مقصد تو دونوں جگہ موجود ہے، بلکہ غسل حیض کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ کسی صورت میں غسل احرام کو نہیں، کیونکہ غسل حیض فرض ہے اور اس میں نجاست کا ازالہ مقصود ہوتا ہے، جبکہ غسل احرام سنت ہے اور اس میں صرف جسم کی صفائی پیش نظر ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 541/1)

شب محصب سے مراد وہ رات ہے جس میں حج سے فراغت کے بعد اہل مدینہ قافلہ بندی کے لیے ٹھہرتے تھے. ان کا مقام پڑاؤ وادی محصب تھا جو مکہ اور منی کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
پھر وہاں سے جمع ہو کر رات کے آخری حصے میں مدینے کی طرف روانگی ہوتی تھی. ذوالحجہ کی تیرھویں یا چودھویں رات کو لیلة الحصبة یا شب محصب کہا جاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 316   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:328  
328. حضرت عائشہ‬ ؓ ز‬وجہ نبی ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آ گیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: شاید وہ ہمیں (مدینہ) جانے سے باز رکھے گی۔ کیا اس نے تمہارے ساتھ طواف (زیارت) نہیں کر لیا تھا؟ انھوں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ رخت سفر باندھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:328]
حدیث حاشیہ:

طواف کی تین اقسام ہیں:
۔
طواف قدوم:
۔
اسے طواف تحیہ بھی کہا جاتا ہے۔
بیت اللہ میں داخل ہوتے ہی پہلے یہ طواف کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی عورت حالت ِحیض میں مکہ پہنچے تویہ طواف ساقط ہوجاتا ہے۔
۔
طواف افاضہ:
۔
اسے طواف زیارت بھی کہاجاتاہے۔
یہ حج کارکن ہے۔
یہ طواف ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو کیا جاتا ہے۔
یہ کسی حالت میں ساقط نہیں ہوتا۔
اگرعورت کو حیض آجائے تو وہ اس کےختم ہونے کا انتظار کرے اور طواف افاضہ کرکے وطن واپس آئے۔
۔
طواف وداع:
اسے طواف صدر بھی کہتے ہیں جو وطن واپسی کے وقت کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی عورت حالت حیض میں ہے تو طواف وداع بھی ساقط ہوجاتا ہے۔

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ طواف افاضہ،جوحج کارکن ہے، کرلینے کے بعداگر کسی خاتون کو حیض شروع ہوجائے تو اسے طواف وداع کے لیے مکہ مکرمہ میں ٹھہرنا ضروری نہیں، وہ اپنے گھر واپس آسکتی ہے، کیونکہ شریعت نے اسے ساقط کردیا ہے۔
طواف افاضہ کو طواف رکن، طواف زیارت اورطواف یوم النحر بھی کہتے ہیں۔
حضرت ابن عمر ؓ کا پہلے فتویٰ تھا کہ حائضہ کو طواف وداع کے لیے طہارت کا انتظار کرنا ہوگا۔
جب انھیں پتہ چلاکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی رخصت دی تھی تو اس موقف سے رجوع کرلیا یا رخصت کا پہلے علم تھا، لیکن وہ بھول گئے اور اسے متاثر کردینے کا فتویٰ دینے لگے، بعد میں یاد دہانی کرانے سے اپنے فتوی سے دستبردار ہوگئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتی۔
(فتح الباري: 555/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 328   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1518  
1518. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ سب لوگوں نے عمرہ کرلیا ہے لیکن میں نہیں کر سکی ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے فرمایا: اپنی ہمشیرہ کولے جاؤ اور انھیں مقام تنعیم سے عمرہ کراؤ۔ چنانچہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ کو اونٹ کے پیچھے پالان پر بٹھا لیا اور اس طرح حضرت عائشہ ؓ نے عمرہ مکمل کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1518]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج میں زیب وزینت اور تکلفات کا ترک کرنا افضل ہے، اس میں انسان کو اپنی سہولیات کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔
اگر اس سفر میں کوئی پریشانی یا تکلیف آئے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے، کسی قسم کا حرف شکایت اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے، کیونکہ یہ سفر،جہاد سے کم نہیں ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو عمرہ کرنے کےلیے تنعیم روانہ کیا کیونکہ حرم کی قریبی حدود ہی مقام تھا۔
اس کے متعلق مکمل تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
إن شاءاللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1518   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1561  
1561. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ (مدینہ سے) روانہ ہوئے تو صرف حج کرنے کاارادہ تھا لیکن جب ہم نے مکہ مکرمہ پہنچ کرکعبہ کاطواف کرلیا تو نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ جو شخص قربانی کاجانور ساتھ لے کر نہ آیا ہو و ہ احرام کھول دے، چنانچہ جو لوگ قربانی ساتھ نہ لائے تھے وہ احرام سے باہر ہوگئے۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات بھی قربانی کاجانور ہمراہ نہ لائی تھیں، اس لیے انھوں نے بھی احرام کھول دیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ ﷺ فرماتی ہیں کہ میں حالت حیض میں تھی، اس لیے میں نے طواف نہ کیا۔ جب وادی محصب میں ٹھہرنے کی رات تھی تو میں نے عرض کیا: اللہ کے ر سول ﷺ! لوگ تو عمرہ اور حج کرکے لوٹیں گے اور میں صرف حج کرکے واپس جارہی ہوں۔ آپ نے فرمایا: جن راتوں میں ہم مکہ مکرمہ آئے تھے کیا تم نے طواف نہیں کیا تھا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے بھائی (عبدالرحمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1561]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ان صحابہ کرام ؓ کو جو قربانی ساتھ نہیں لائے تھے عمرہ کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تو اس سے حج تمتع ثابت ہوا، نیز اس سے حج کو فسخ کر کے عمرے میں بدل دینے کا جواز بھی ثابت ہوا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا عنوان بھی یہی ہے، البتہ اس حدیث میں ہے کہ ہمارا صرف حج کرنے کا ارادہ تھا جبکہ حضرت عروہ کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھا تھا۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1783، والمغازي، حدیث: 4395)
علامہ اسماعیلی نے اس روایت کو غلط قرار دیا ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ سے احرام عمرے کا ذکر ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دور جاہلیت میں عمرے کے متعلق یہ خیال تھا کہ اسے حج کے مہینوں میں نہیں کرنا چاہیے، اس لیے صحابہ کرام ؓ حج کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔
ان میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے جب وضاحت کی اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جائز قرار دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے عمرے کا احرام باندھ لیا، اس لیے حضرت عروہ کی روایت کو غلط قرار دینے کی ضرورت نہیں۔
ان مختلف روایات میں تطبیق کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حج افراد کا احرام باندھا جیسا کہ دیگر صحابہ کرام نے کیا تھا۔
مذکورہ حدیثِ اسود میں اسی کا بیان ہے۔
پھر آپ نے احرامِ حج کو عمرے میں بدل دینے کا حکم دیا تو حضرت عائشہ ؓ نے بھی اسی عمرے کے احرام میں بدل لیا جیسا کہ حدیث عروہ میں ہے لیکن جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ اپنے عارضے کی وجہ سے عمرہ نہ کر سکتی تھیں، اس لیے آپ نے عمرہ چھوڑ دینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم حج کے احرام کی نیت کر لو۔
(فتح الباري: 534/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1561   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1650  
1650. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب میں حج کے لیے مکہ آئی تو میں حیض سے تھی، اس لیے میں بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی نہ کرسکی۔ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: دیگر حاجیوں کی طرح ارکان حج ادا کرتی رہو لیکن بیت اللہ کا طواف نہ کرو حتیٰ کہ حیض سے پاک ہوجاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1650]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے عنوان کا پہلا جز تو ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے کا ثبوت اس سے نہیں ہوتا۔
شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اتنا اضافہ بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت صفا و مروہ کا طواف بھی نہ کرے۔
اس اضافے کو امام مالک سے یحییٰ بن یحییٰ نیسا پوری کے علاوہ کسی دوسرے نے بیان نہیں کیا۔
اگر یہ اضافہ صحیح ہو تو بھی اس کی بنیاد پر صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا جا سکتا، البتہ صفا و مروہ کی سعی سے پہلے طواف ضروری ہے۔
جب بے وضو طواف درست نہیں تو اس کے تابع ہونے کی وجہ سے سعی بھی بے وضو منع ہو گی۔
ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر رحمۃ اللہ علیہما سے بیان کیا ہے کہ حائضہ عورت تمام ارکان حج بجا لائے لیکن بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی نہ کرے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 129/2)
اسلاف میں سے کسی نے بھی صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کو شرط قرار نہیں دیا، البتہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ایسا منقول ہے۔
(فتح الباري: 637/3) (2)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے دوسرے جز کو بایں طور پر ثابت کیا ہے کہ اس حدیث سے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے کی ممانعت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صفا و مروہ کی سعی بغیر وضو کے اور بلا طہارت ہو سکتی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر طواف کے بعد اور سعی سے پہلے عورت کو حیض آ جائے تو وہ صفا و مروہ کی سعی کرے۔
ہمارے نزدیک صفا و مروہ کی سعی کے لیے وضو کی پابندی لگانا محل نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1650   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1733  
1733. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ جب ہم نے دسویں تاریخ کو طواف افاضہ کیا تو حضرت صفیہ ؓ کو حیض آگیا۔ نبی ﷺ نے جب ان سے اس چیز کا ارادہ کیاجوشوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اسے تو حیض آگیا ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ ہمیں مدینہ واپس جانے سے روک دے گی؟ انھوں نے عرض کیا کہ انھوں (صفیہ ؓ) نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیاتھا۔ آپ نے فرمایا: پھر کوچ کرو۔ حضرت قاسم عروہ اور اسود سے ذکر کیا جاتا ہے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ صفیہ ؓ نے قربانی کے دن طواف زیارت کر لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1733]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا خیال تھا کہ حضرت صفیہ ؓ نے طواف زیارت نہیں کیا اور وہ پاک ہونے تک ہمیں روکے رکھے گی کیونکہ طواف زیارت فرض ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا، اس کے بعد ہمیں مدینہ طیبہ روانہ ہونا ہے لیکن جب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کر لیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اب ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کوچ کرو اور طواف وداع ترک کرنے کی رخصت دی کیونکہ وہ حائضہ عورت سے ساقط ہے۔
(2)
واضح رہے کہ ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے میں متفرد نہیں ہیں بلکہ حضرت عروہ، قاسم اور حضرت اسود نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔
قاسم کی روایت کو امام مسلم نے اور عروہ و اسود کی روایات کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل اسانید سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 717/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1733   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1772  
1772. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ہم تمہارا انتظار [صحيح بخاري، حديث نمبر:1772]
حدیث حاشیہ:
(1)
اِدلاج اگر دال پر تشدید ہو تو اس کے معنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ وادئ محصب میں جہاں رات بسر کی ہو وہاں سے سحری کے وقت روانگی ہو جائے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے یہاں دو روایات ذکر کی ہیں۔
چونکہ دونوں ایک ہی قصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے۔
اگرچہ پہلی روایت میں صراحت نہیں، تاہم واقعہ ایک ہونے کی وجہ سے پہلی روایت بھی عنوان کے مطابق ہی خیال کی جائے گی۔
(عمدةالقاري: 397/7) (3)
رسول اللہ ﷺ نے ازراہ محبت حضرت صفیہ ؓ کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ عقریٰ، حلقیٰ، بانجھ، سرمنڈی۔
ان الفاظ سے رحمت و شفقت ٹپکتی ہے جیسا کہ ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا:
حیض ایک معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے۔
ان الفاظ سے بددعا دینا مراد نہیں اور نہ اظہار خفگی مقصود ہے۔
(فتح الباري: 744/3) (4)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تالیف قلبی کے لیے فرمایا:
اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ جا کر مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ لو اور عمرہ کر لو کیونکہ انہوں نے دوسری امہات المومنین ؓ کی طرح مستقل عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔
چونکہ عورتوں کے لیے تنہا سفر کرنا مناسب نہیں، اس لیے ان کے بھائی کو ساتھ روانہ فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1772  
1772. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صرف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ نے ہمیں احرام کھول دینے کاحکم دیا۔ اور جب روانگی کی رات تھی تو حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلقیٰ عقریٰ! میرا خیال ہے کہ وہ تمھیں سفر سے روک دے گی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت کیا تھا؟ صفیہ نے کہا: جی ہاں!تو آپ نے فرمایا: پھر سفر پر روانہ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں حلال نہیں ہوئی (میں نے حج کا احرام نہیں کھولا ہے۔) آپ ﷺ نے فرمایا: تم مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرلو۔ چنانچہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عبدالرحمان ؓ گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے تو آپ نے فرمایا: ہم تمہارا انتظار [صحيح بخاري، حديث نمبر:1772]
حدیث حاشیہ:
(1)
اِدلاج اگر دال پر تشدید ہو تو اس کے معنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ وادئ محصب میں جہاں رات بسر کی ہو وہاں سے سحری کے وقت روانگی ہو جائے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے یہاں دو روایات ذکر کی ہیں۔
چونکہ دونوں ایک ہی قصے پر مشتمل ہیں، اس لیے ان کی عنوان سے مطابقت واضح ہے کیونکہ دوسری روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ہم آپ کو رات کے آخری حصے میں ملے۔
اگرچہ پہلی روایت میں صراحت نہیں، تاہم واقعہ ایک ہونے کی وجہ سے پہلی روایت بھی عنوان کے مطابق ہی خیال کی جائے گی۔
(عمدةالقاري: 397/7) (3)
رسول اللہ ﷺ نے ازراہ محبت حضرت صفیہ ؓ کے لیے یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ عقریٰ، حلقیٰ، بانجھ، سرمنڈی۔
ان الفاظ سے رحمت و شفقت ٹپکتی ہے جیسا کہ ایسے موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا:
حیض ایک معاملہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنات آدم پر لکھ دیا ہے۔
ان الفاظ سے بددعا دینا مراد نہیں اور نہ اظہار خفگی مقصود ہے۔
(فتح الباري: 744/3) (4)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی تالیف قلبی کے لیے فرمایا:
اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کے ہمراہ جا کر مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھ لو اور عمرہ کر لو کیونکہ انہوں نے دوسری امہات المومنین ؓ کی طرح مستقل عمرہ کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا۔
چونکہ عورتوں کے لیے تنہا سفر کرنا مناسب نہیں، اس لیے ان کے بھائی کو ساتھ روانہ فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1772   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1787  
1787. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں ے عرض کیا: اللہ کےرسول ﷺ! لوگ دو عبادتیں (حج وعمرہ) کر کے واپس جائیں گے جبکہ میں صرف ایک عبادت (حج) کرکے واپس جارہی ہوں؟ تو ان سے کہا گیا: آپ انتظار کریں۔ جب حیض سے پاک ہوجائیں تو تنعیم جا کر عمرے کا احرام باندھیں پھر فلاں جگہ ہمارے پاس آئیں لیکن عمرے کا ثواب تمہارے خرچ یا تمہاری مشقت کے مطابق دیاجائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1787]
حدیث حاشیہ:
(1)
مطلب یہ ہے کہ طاعات میں مال خرچ کرنا فضیلت کا باعث ہے، اسی طرح خواہشات نفس کا قلع قمع کر کے مشقت اٹھانا بھی اللہ کے ہاں زیادہ اجروثواب کا باعث ہے لیکن یہ قاعدہ کلی نہیں بلکہ اکثری ہے کیونکہ کبھی بعض عوارض کی وجہ سے تھوڑی سی عبادت زیادہ ثواب کا موجب بن جاتی ہے، مثلا:
شب قدر کی عبادت ہزار ماہ کی عبادت سے افضل ہے اور ایسا زمان کی وجہ سے ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نماز کے برابر ہے اور یہ برتری مکان کی برکت سے ہے۔
(2)
واضح رہے کہ خرچ اور مشقت بھی وہ معتبر ہے جس کی شریعت مذمت نہ کرے، بے جا مال خرچ کرنا یا خواہ مخواہ خود کو مشقت میں ڈالنا شریعت میں قطعا محمود نہیں۔
(3)
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو عمرہ قریب ترین میقات سے ہو گا وہ اجروثواب میں کمی کا باعث ہے، غالبا رسول اللہ ﷺ نےجعرانه سے عمرے کا احرام باندھا تھا جو مکہ مکرمہ کے اعتبار سے سب سے دور والا میقات ہے۔
(فتح الباري: 771/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1787   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4401  
4401. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کو حیض آ گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: کیا وہ ہمیں روکنے والی ہے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ طواف افاضہ کر چکی ہے۔ یہ سن کر نبی ﷺ نے فرمایا: اسے چاہئے کہ وہ اب کوچ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4401]
حدیث حاشیہ:

ذوالحجہ کی دس تاریخ کوحاجیوں کے لیے بیت اللہ کا طواف کرنا ضروری ہے۔
اسے طواف ِزیارت، طواف صدر اور طواف افاضہ کہتے ہیں۔
جب تک یہ طواف نہیں ہوگا حج مکمل نہیں ہوگا۔
حیض ونفاس اس کی معافی کا سبب نہیں بن سکتے۔

ایک طواف وداع ہے جو حج سے فراغت کے بعد کیا جاتا ہے۔
باہرسے آنے والے کے لیے واجب ہے۔
حائضہ عورت کو طواف زیارت کے لیے ٹھہرنا پڑے گا لیکن طواف وداع کے لیے ٹھہرنے کی ضرورت نہیں، چنانچہ جب حضرت صفیہ ؓ کوحیض آیا تو نبی کریم ﷺ کا خیال تھا کہ شاید انھوں نے طواف افاضہ نہیں کیا جس پر آپ نے گھبراہٹ کا اظہار فرمایا۔
جب معلوم ہوا کہ وہ طواف افاضہ کرچکی ہیں توآپ نے روانگی کا حکم دیا۔
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4401   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5329  
5329. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے کوچ کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ سیدہ صفیہ‬ ؓ ا‬پنے خیمے کے دروازے پر پریشان کھڑی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ''عقریٰ'' یا فرمایا ''حلقیٰ'' تو ہمیں روک دے گی۔ کیا تو نے قربانی کے دن طواف کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر کوچ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5329]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کے بارے میں صفیہ رضی اللہ عنہا کی بات کو تسلیم کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو باتیں عورتوں سے متعلقہ ہیں وہ صرف ان کے کہنے سے مان لی جائیں گی، اس لیے انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے صحیح صحیح بات بتانی چاہیے۔
(2)
بہرحال عدت کا دار و مدار حیض اور طہر پر ہے، اس سلسلے میں عورتوں کی بات کا اعتبار کیا جائے گا الا یہ کہ قرائن سے ان کا جھوٹ ظاہر ہو جائے۔
(فتح الباري: 596/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5329   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5548  
5548. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے جبکہ وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے مقام سرف پر حائضہ ہو چکی تھیں اور وہ رو رہی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ سیدہ عائشہ نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ وہ چیز ہےجو اللہ تعالٰی نے آدم کی بیٹیوں کے مقدر میں لکھ دی ہے تم حاجیوں کی طرح اعمال حج ادا کرو مگر بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ جب منیٰ میں تھے تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا۔ میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5548]
حدیث حاشیہ:
(1)
اہل کوفہ کا موقف ہے کہ مقیم آزاد آدمی ہی اپنی طرف سے قربانی کر سکتا ہے، مسافر خود یا اس کی طرف سے قربانی نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح بعض حضرات کے خیال کے مطابق عورتوں پر قربانی نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان تمام حضرات کی تردید کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ مسافر خود بھی قربانی کر سکتا ہے اور اس کی طرف سے بھی قربانی ہو سکتی ہے، اسی طرح عورت بھی قربانی کر سکتی ہے اور اس کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، چنانچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسافر تھے اور آپ نے قربانی کی اور ایک گائے ازواج مطہرات کی طرف سے بطور قربانی ذبح کی۔
(2)
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی طرف سے قربانی ان کی اجازت سے دی تھی (شرح مسلم للنووي: 206/8، تحت رقم الحدیث: 2918 (1211)
لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی۔
اگر ان سے اجازت لی ہوتی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گوشت کے متعلق نہ پوچھتیں کہ یہ کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5548   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5559  
5559. سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مقام سرف میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میں رو رہی تھی۔ آپ ﷺ فرمایا: کیا بات ہے؟ کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: یہ تو اللہ تعالٰی نے بنات آدم کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ اس بنا پر تو دوسرے حاجیوں کی طرح تمام اعمال حج ادا کر، صرف بیت اللہ کا طواف نہ کر۔ رسول اللہ ﷺ نے بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5559]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی ان ازواج کی طرف سے جنہوں نے عمرہ کیا تھا مشترکہ طور پر ایک گائے ذبح کی تھی۔
(سنن ابن ماجة، الأضاحي، حدیث: 3133) (2)
اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی دوسرا آدمی قربانی کا جانور ذبح کر سکتا ہے جبکہ قربانی کرنے والا خود اچھی طرح ذبح نہ کر سکتا ہو، بہرحال اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی دوسرا ذبح کرے یا ذبح کرنے میں قربانی کرنے والے کا ہاتھ بٹائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5559   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6157  
6157. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے حج سے واپسی کا ارادہ کیا تو خیمے کے دروازے پر سیدہ صفیہ‬ ؓ ک‬و بہت غمناک دیکھا کیونکہ انہیں حیض آگیا تھا۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: کاٹی مونڈی۔۔۔ یہ قریش کا محاورہ ہے۔۔۔۔ اب تم ہمیں روکنا چاہتی ہو۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا: کیا تم نے قربانی کے دن طواف زیارت کرلیا تھا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں آپ نے فرمایا: اگر ایسا ہے تو پھر سفر کا آغاز کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6157]
حدیث حاشیہ:
پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے تربت يمينك تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں اور دوسری حدیث میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے عقرى حلقی، یعنی کاٹی مونڈی کے الفاظ استعمال کیے، ان الفاظ کے اصل معنی مقصود نہیں بلکہ عربوں کے ہاں اظہار تعجب کے لیے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد گرامی ہے جو امت کے لیے بہت امید افزا ہے:
اے اللہ! میں نے تجھ سے ایک عہد لیا ہے جس کا تو خلاف نہیں کرے گا، آخر میں بھی ایک انسان ہوں، میں نے مومن کو کوئی اذیت پہنچائی ہو، میں نے اسے برا بھلا کہا ہو، لعن و طعن کی ہو، اسے مارا ہو تو اسے اس کے لیے باعث طہارت و رحمت اور قربت کا ذریعہ بنا دے اور قیامت کے دن تو اس وجہ سے اسے اپنا مقرب بنا لے۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6619(2601)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6157