بلوغ المرام
كتاب الصلاة -- نماز کے احکام
8. باب سجود السهو وغيره
سجود سہو وغیرہ کا بیان
حدیث نمبر: 278
وعن عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه قال: سجد النبي صلى الله عليه وآله وسلم فأطال السجود ثم رفع رأسه فقال: «‏‏‏‏إن جبريل أتاني فبشرني فسجدت لله شكرا» .‏‏‏‏ رواه أحمد وصححه الحاكم.
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر فرمایا ابھی جبرائیل علیہ السلام ایک خوشخبری لے کر میرے پاس آئے تو وہ مژدہ سن کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ شکر ادا کیا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد:1 /191، والحاكم: 1 /550، وصححه، ووافقه الذهبي.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 278  
´سجود سہو وغیرہ کا بیان`
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے سر اٹھا کر فرمایا ابھی جبرائیل علیہ السلام ایک خوشخبری لے کر میرے پاس آئے تو وہ مژدہ سن کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ شکر ادا کیا۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 278»
تخریج:
«أخرجه أحمد:1 /191، والحاكم: 1 /550، وصححه، ووافقه الذهبي.»
تشریح:
مذکورہ روایت متعدد اسانید سے مروی ہے اور ان میں سے ایک روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ وہ بشارت اور خوشخبری یہ تھی کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
اور اس کے دس گناہ معاف فرما دے گا۔
(المصنف لابن أبي شیبۃ:۱۱ / ۵۰۶) یہ خوش کن اطلاع پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گر پڑے اور شکریہ ادا کیا‘ لہٰذا جب کسی کو نعمت و مسرت کے حصول اور مصیبت سے بچ نکلنے کا موقع پیش آجائے تو اسے بھی سجدۂ شکر ادا کرنا چاہیے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابومحمد ہے۔
قریش کے زہرہ قبیلے سے تھے۔
قدیم الاسلام ہیں۔
حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شریک ہوئے۔
بدر و احد وغیرہ سب غزوات میں شامل رہے۔
ان کا شمار ان دس خوش قسمت انسانوں میں ہوتا ہے جنھیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی۔
یہ ان چھ افراد میں سے ایک تھے جنھیں خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے نامزد فرمایا تھا۔
عہد نبوی میں انھوں نے ایک مرتبہ چار ہزار اور پھر چالیس ہزار دینار صدقہ و خیرات کیے‘ پھر انھوں نے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ جہاد کے لیے پیش کیے۔
امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے لیے اپنے ایک باغیچے کے متعلق وصیت کی کہ ان کی نذر کر دیا جائے‘ اس کی بعد میں قیمت لگوائی گئی تو وہ چار لاکھ دینار تھی۔
۳۴ ہجری میں وفات پائی اور بقیع میں تدفین ہوئی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 278