بلوغ المرام
كتاب الجنائز -- جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 462
وعن سالم عن أبيه رضي الله عنهما أنه رأى النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأبا بكر وعمر وهم يمشون أمام الجنازة. رواه الخمسة،‏‏‏‏ وصححه ابن حبان،‏‏‏‏ وأعله النسائي وطائفة بالإرسال.
سیدنا سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔
اس کو پانچوں یعنی احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور نسائی اور ایک گروہ نے اسے مرسل ہونے کی وجہ سے معلول کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الجنائز، باب المشي أمام الجنازة، حديث:3179، والترمذي، الجنائز، حديث:1007، 1009، والنسائي، الجنائز، حديث:1945، وابن ماجه، الجنائز، حديث:1482، وابن حبان (الإحسان):5 /20، حديث:3035، وقول الترمذي: ((أهل الحديث كلهم يرون...)) يعني من شيوخه، وإلا فبعض أهل الحديث صححه كابن حبان رحمه الله، والمرسل شاهد له.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1482  
´جنازہ کے آگے چلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے آگے چلتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1482]
اردو حاشہ:
فائده:
(اِتَّبَاعُ الْجَنَائِز)
جنازوں کے پیچھے جانا اس لفظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنازے کے ساتھ جانے والے سبھی افراد کو پیچھے چلنا چاہیے۔
لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیچھے جانے کے لفظ سے ساتھ جانا مراد ہے۔
اس لئے ساتھ جانے والے جس طرح میت کی چار پائی کے پیچھے چل سکتے ہیں۔
اسی طرح آگے بھی چل سکتے ہیں لہذا دایئں یا بایئں چلنا تو بالاولیٰ جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1482   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 462  
´جنازے کے ساتھ چلنے کا بیان`
سیدنا سالم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 462]
فائدہ:
جنازے کے ساتھ قبرستان تک جانے کی صورت میں آگے چلنا چاہیے یا پیچھے؟ مختلف روایات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دائیں بائیں، آگے اور پیچھے ہر طرح سے ثابت ہے۔

روای حدیث:
[ سالم رحمہ اللہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ یا ابوعمر ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے۔ سالم بن عبداللہ بن عمر بن خطاب۔ سادات تابعین میں سے تھے اور اپنے دور کے معتبر عالم تھے۔ مدینہ طیبہ کے فقہائے سبعہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ نہایت ثابت، عالم فاضل تھے۔ اخلاق و سیرت اور عادات میں اپنے والد سے بہت مشابہت رکھتے تھے۔ ذوالقعدہ یا ذوالححجہ کے مہینے میں ۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 462   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1009  
´جنازے کے آگے چلنے کا بیان۔`
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما جنازے کے آگے آگے چلتے تھے۔ زہری یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر جنازے کے آگے چلتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1009]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
ملاحظہ ہو اگلی حدیث (1010) رہی ابن مسعود کی روایت جو آگے آ رہی ہے  «الجنازة متبوعة ولا تتبع وليس منها من تقدمها»  تو یہ روایت صحیح نہیں ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آ رہی ہے۔
 (ملاحظہ ہو: 1011)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1009   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3179  
´جنازے کے آگے آگے چلنا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3179]
فوائد ومسائل:
حسب احوال میت کے آگے آگے پیدل چلنا جائز ہے۔
اس میں میت کی کوئی بے ادبی نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3179