بلوغ المرام
كتاب الجنائز -- جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 472
وعن بريدة بن الحصيب الأسلمي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«‏‏‏‏كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها» .‏‏‏‏ رواه مسلم. زاد الترمذي: «‏‏‏‏فإنها تذكر الآخرة» . زاد ابن ماجه من حديث ابن مسعود: «‏‏‏‏وتزهد في الدنيا» .
سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔ (مسلم)
ترمذی نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ قبروں کی زیارت آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ اور ابن ماجہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ زیارت دنیا سے بے رغبت بنا دیتی ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجنائز، باب استئذان النبي صلي الله عليه وسلم في زيارة قبر أمه، حديث:977، والترمذي، الجنائز، حديث:1054 وقال: "حسن صحيح" وحديث ابن مسعود أخرجه ابن ماجه، الجنائز، حديث:1571 وهو حديث حسن.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1571  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روک دیا تھا، تو اب ان کی زیارت کرو، اس لیے کہ یہ دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے، اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1571]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ (فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا)
کے سوا باقی حدیث کے شواہد صحیح مسلم میں ہیں جیسا کہ پہلا جملہ صحیح مسلم کی حدیث میں موجود ہے۔
جس کے الفاظ یہ ہیں۔
میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔
تو ان کی زیارت کیا کرو۔
اور میں نے تمھیں قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ رکھنے سے منع کیا تھا۔
اب جب تک چاہو رکھ سکتے ہو۔
۔
۔
الخ (صحیح مسلم، الأضاحي، باب بیان ماکان من النھي عن أکل لحوم الأضاحي بعد ثلاث فی أوّل الإسلام وبیان نسخه إباحته إلی متی شاء، حدیث: 1976)
 زیارت قبور کی حکمت بھی دوسری صحیح حدیث میں وارد ہے۔
جیسے حدیث 1572 میں آ رہا ہے۔
 قبروں کی زیارت کرو یہ تمھیں موت کی یاد دلاتی ہے۔
یہ جملہ بھی صحیح مسلم کی ایک حدیث میں وار د ہے۔
دیکھئے: (صحیح المسلم، الجنائز، باب الستئذان النبی ﷺ ربه عزوجل فی زیارۃ قبر امه، حدیث: 976)
 لہٰذا مذکورہ روایت (فَإِنَّهَا تُزَهِّدُ فِي الدُّنْيَا)
 جملے کے سو ا شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
جس طرح قرآن مجید کی بعض آیات سے پہلے سے نازل شدہ بعض آیات میں مذکور حکم منسوخ ہوجاتا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث سے بھی سابقہ حدیث مسنوخ ہوسکتی ہے۔
جیسے کہ اس روایت میں صراحت موجود ہے۔

(3)
دنیا میں جائز طریقے سے رزق کمانا اور فخر وتکبر کے بغیر فضول خرچی نہ کرتے ہوئے اپنی ذات پر اور اہل خانہ پر خرچ کرنا جائز ہے۔
لیکن دولت کی ہوس اور عیش وآرام میں انہماک انسان کو آخرت سے غافل کردیتا ہے۔
دل کی اس کیفیت کا علاج کرنے کے لئے قبرستان میں جاناچاہییے۔
تاکہ اپنی موت یادآئے۔
اور اگلے جہاں کے لئے تیاری کرنے کی رغبت پیدا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1571   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 472  
´قبروں کی زیارت جائز ہے`
سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 472]
لغوی تشریح:
«فَزُورُوهَا» «زيارة» سے امر کا صیغہ ہے۔ یہ اجازت ممانعت کے بعد تھی۔
«تُذَكَّرُ» «تذكير» سے ماخوذ ہے، یعنی یاد دہانی کراتی ہے۔
«تُزْهَّدُ» «تزهيد» سے ماخوذ ہے، یعنی دنیا سے بےرغبت و زاہد بنا دیتی ہے۔ زیارت قبور سے بس یہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔

فوائد و مسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت جائز ہے۔
➋ ابتداء میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا مگر پھر اس کی اجازت دے دی اور اس سے مقصد آخرت کی یاد اور میت کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
➌ قبروں پر نذر و نیاز اور عرس وغیرہ کا شریعت مطہرہ میں کوئی جواز نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 472   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1054  
´قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1054]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکید ہے،
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانۂ جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدۂ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3235  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3235]
فوائد ومسائل:

زیارت قبور ایک مشروع او ر مسنون عمل ہے۔
انسان جہاں کہیں مقیم ہو وہاں کے قبرستان کی زیارت کو اپنا معمول بنالے۔
مگر صرف اس مقصد کےلئے دور دراز کا سفر کرنا جائز نہیں۔

زیارت قبور کے مسنون آداب ہیں۔
یعنی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا اور مسلمان اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت نہ کہ وہاں جا کر نماز پڑھنا۔
یا تلاوت قرآن کرنا۔
قبر کو مقام قبولیت سمجھنا یا صاحب قبر کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنا یا خود اسی کو اپنی حاجات پیش کرنا۔
یہ سب کام حرام ہیں۔
اور اسی طرح قبروں پر میلے ٹھیلے اور عرس وقوالی وغیرہ کا احادیث رسول اللہ ﷺ اور عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3235