بلوغ المرام
كتاب الجنائز -- جنازے کے مسائل
1. (أحاديث في الجنائز)
(جنازے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 480
وعن سليمان بن بريدة عن أبيه رضي الله عنهما قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابرأن يقولوا: السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون أسأل الله لنا ولكم العافية. رواه مسلم.
سیدنا سلیمان بن بریدہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سکھلاتے کہ یوں کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون أسأل الله لنا ولكم العافية» اہل دیار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام ہو! یقیناً، انشاء اللہ ہم بھی آپ کے ساتھ ملنے والے ہیں اور ہم اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ سے عافیت مانگتے ہیں۔ (مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الجنائز، باب ما يقال عند دخول القبور والدعاء لأهلها، حديث:975.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1547  
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون نسأل الله لنا ولكم العافية» اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلام ہو، ہم تم سے ان شاءاللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1547]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر ہم اپنے کسی عزیز یا بزرگ کی قبر کی زیارت کےلئے جایئں یا مسلمانوں کے قبرستان میں جائیں تو ہمیں چاہیے کہ ان مسنون الفاظ کے ساتھ ان کے حق میں دعائے خیر کریں
(2)
فاتحہ پڑھ کرثواب پہنچانا سنت سے ثابت نہیں۔
لہٰذا ایسے اعمال سے اجتناب بہتر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1547   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 480  
´قبرستان جانا، فوت شدگان اور اپنے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کرنا`
سیدنا سلیمان بن بریدہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سکھلاتے کہ یوں کہو اہل دیار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام ہو! یقیناً، انشاء اللہ ہم بھی آپ کے ساتھ ملنے والے ہیں اور ہم اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ سے عافیت مانگتے ہیں۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 480]
لغوی تشریح:
«اَهَلَ الدِّيَارِ» ان سے مراد قبروں میں پڑے ہوئے لوگ ہیں۔ «ديار»، «دار» کی جمع ہے۔ قبر کو گھر سے تشبیہ دی گئی ہے، اس لیے کہ قبر میت کے لیے گھر کی مانند ہے کہ وہ اس میں رہائش پذیر ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے قبرستان میں جانا اور پھر فوت شدگان کے لیے اور اپنے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کرنا ثابت ہوتا ہے۔
«مِنَ الْمُؤمِنِينَ وَلْمُسٰلِمِين» سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک، کافر اور ملحد کے لیے دعا کرنا اور ان کے لیے بخشش مانگنا جائز نہیں۔
➌ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل قبور کو فریاد رس، مشکل کشا سمجھ کر ان سے فریادیں کرتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں، یہ سب کام خلاف شرع اور شرکیہ افعال ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

راوی حدیث:
حضرت سلیمان بن بریدہ بن حصیب اسلمی مروزی رحمہ اللہ، مشہور تابعی ہیں۔ امام ابن معین اور ابوحاتم رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ کی رائے کہ ان کا اپنے والد سے سماع کہیں مذکور نہیں، مگر خرزجی نے کہا کہ ان کی اپنے والد سے متعدد احادیث صحیح مسلم میں منقول ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 480