بلوغ المرام
كتاب الصيام -- روزے کے مسائل
1. (أحاديث في الصيام)
(روزے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 537
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن الوصال فقال رجل من المسلمين: فإنك تواصل يا رسول الله؟ فقال: «وأيكم مثلي؟ إني أبيت يطعمني ربي ويسقيني» ‏‏‏‏ فلما أبوا أن ينتهوا عن الوصال واصل بهم يوما ثم يوما ثم رأوا الهلال فقال: «‏‏‏‏لو تأخر الهلال لزدتكم» ‏‏‏‏ كالمنكل لهم حين أبوا أن ينتهوا. متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا مسلمانوں میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول! آپ خود تو وصال فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے میرے جیسا کون ہے؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ جب لوگوں نے وصال سے باز آنے سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن پھر دوسرے دن کا وصال کیا۔ پھر انہوں نے چاند کو دیکھ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند آج نظر نہ آتا تو میں تمہارے لئے زیادہ دن وصال کرتا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اس سے باز نہ رہنے کی وجہ سے سزا دے رہے تھے۔ (بخاری و مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصوم، باب التنكيل لمن أكثر الوصال، حديث:1965، ومسلم، الصيام، باب النهي عن الوصال في الصوم، حديث:1103.»
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7299  
´ کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُوَاصِلُوا، قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ:" إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، فَلَمْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ، قَالَ: فَوَاصَلَ بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَيْنِ أَوْ لَيْلَتَيْنِ، ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم صوم وصال (افطار و سحر کے بغیر کئی دن کے روزے) نہ رکھا کرو۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو صوم وصال رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم جیسا نہیں ہوں۔ میں رات گزارتا ہوں اور میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے لیکن لوگ صوم وصال سے نہیں رکے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن یا دو راتوں میں صوم وصال کیا، پھر لوگوں نے چاند دیکھ لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ نظر آتا تو میں اور وصال کرتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انہیں سرزنش کرنا تھا [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7299]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7299 کا باب: «بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالْبِدَعِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے اس کا حدیث سے مطابقت ہونا مشکل ہے کیونکہ ترجمۃ الباب کسی امر پر سختی اور تشدد کے بیان کو واضح کرتا ہے جبکہ تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں جس سے باب سے مناسبت ظاہر ہو سکے۔

چنانچہ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«حديث أبى هريرة و ليس الحديث مطابقاً للترجمة فى الظاهر لكن البخاري جرى على عادته فى إيراد ما لا يناسب الترجمة فى الظاهر، تشحيذ الأذهان، فأشار إلى الرواية الأخرى التى أوردها فى التمني و فيها قوله: لو مد بي الشهر، لو اصلت وصالاً يدع المعمقون تعمقهم فحصلت المطابقة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 231/5]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا باب سے مطابقت نہیں ہے ظاہراً لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جسے کتاب التمنی میں ذکر فرمایا ہے کہ اگر اس مہینے کے دن اور بڑھ جاتے تو میں اتنے دن متواتر وصال کرتا کہ ہوس کرنے والے اپنی ہوس بھول جاتے۔ [كتاب التمنيٰ: رقم الحديث 7241] تاکہ اس اشارے کے ذریعے تشحیذ الاذہان پیدا ہو جائے، پس یہیں سے مطابقت حاصل ہوتی ہے (ترجمۃ الباب اور حدیث کی)۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قيل لا مطابقة بين الحديث والترجمة هنا أصلاً، ورد بأن عادته جرت بإيراد ما لا يطابق الترجمة ظاهرًا لكن يناسبها طريق من طريق الحديث الذى يورده، و هنا كذالك.» [عمدة القاري للعيني: 59/25]
کہا گیا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہاں اصلاً مناسبت موجود نہیں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسری طرق میں ان الفاظ کو وارد کیا ہے جہاں سے بات کی مناسبت قائم ہوتی ہے۔

علام قسطلانی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ ہے کہ مطابقت ظاہراً نہ ہو بلکہ تشحیذ للاذھان کے لیے دوسرے طرق میں مناسبت ہوتی ہے (جس کی طرف آپ اشارہ کر دیتے ہیں) یہ دوسرا طرق کتاب التمنی میں گزر چکا ہے۔ [ارشاد الساري: 59/12]

ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جہاں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 298   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 260  
´وصال کے روزے کی ممانعت ہے`
«. . . 344- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والوصال، قالوا: فإنك تواصل يا رسول الله، قال: إني لست كهيئتكم، إني أبيت يطعمني ربي ويسقيني. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصال کے روزے نہ رکھو۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ تو خود وصال کے روزے رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم جیسا نہیں ہوں، مجھے رات کو میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 260]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه أحمد 237/2، والدارمي 1710، من حديث مالك به ورواه مسلم فواد 1103/58، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ امتیوں پر شفقت کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا ہے۔
➋ وصال کے روزوں کا کیا مطلب ہے؟ اس کے لئے اور مزید فقہی فوائد کے لئے دیکھئے: [الموطأ حديث: 209، البخاري 1962، ومسلم 1102]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 344   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 537  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا مسلمانوں میں سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ اللہ کے رسول! آپ خود تو وصال فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے میرے جیسا کون ہے؟ میں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ جب لوگوں نے وصال سے باز آنے سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ایک دن پھر دوسرے دن کا وصال کیا۔ پھر انہوں نے چاند کو دیکھ لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند آج نظر نہ آتا تو میں تمہارے لئے زیادہ دن وصال کرتا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اس سے باز نہ رہنے کی وجہ سے سزا دے رہے تھے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 537]
لغوی تشریح 537:
أَلوِصَال اس کا مطلب ہے کہ آدمی قصدًا دو دن یا زیادہ دن تک افطار نہ کرے اور مسلسل روزہ رکھے۔ رات کو بھی کچھ نہ کھاے پئیے۔ سحری کے وقت اگر اتفاقًا ایسے ہو جائے، یعنی کسی عذر کی بنا پر آدمی کچھ کھاپی نہ سکے تو وہ وصال شمار نہیں ہو گا۔
وَأَیُّکُم مِثلِی یہ استفہام انکاری ہے، یعنی تم میں سے کوئی میری طرح کا نہیں ہے۔ آپ کا یہ قول اس کا متقاضی ہے کہ وصال آپ کی خصوصیت تھی اور آپ کی علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔
یُطعِمُنِی رَبِّی وَ یَسقِینِی میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ پچھلے کلام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی نفی کی تھی کہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کا ہو۔ اس کی وضاحت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ گویا یہ پچھلے کلام کا بیان ہے۔
حافظ ابنِ قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے معارف کی غذا کھلاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر لذت سرگوشی و مناجات کا فیضان ہوتا ہے۔ اللہ رب العزّت کے قرب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنکھوں کی ٹھندک ملتی ہے۔ محبتِ الٰہی کی نعمت سے آپ کو سرشاری نصیب ہوتی ہے اور اس کی جناب کی طرف شوق میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ غذا جو آپ کواللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے۔ یہ روحانی غذا ایسی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیوی غذا سے ایک لمبی مدت تک بے نیاز کر دیتی ہے۔ [تلخيص از زادالمعاد: 155، 154]
کَالمُنَکَّلِ لَھُم أَلمُنَکَّل تَنکِیل سے ماخوذ اسمِ فاعل ہے، یعنی زجر و توبیخ، ڈانٹ ڈپٹ۔ مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وصال کرایا اور ان کے ساتھ مل کر خود بھی مسلسل روزے رکھنے لگے۔ یہ جواز کے لیے نہیں تھا بلکہ زجر و توبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ کے لیے تھا اور اس سے ممانعت کے عمل کو تاکید کے ساتھ بیان کرنا مقصود تھا، چنانچہ جب انہوں نے براہ راست صومِ وصال رکھا تو ان کے سامنے اس کی ممانعت کی حکمت ظاہر ہوئی۔ یہ چیز اسے (ممانعت وصال کو) قبول کرنے کی زیادہ داعی تھی۔

فوائد و مسائل 537:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزے میں وصال مکروہ ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ انسان کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ مسلسل کچھ کھائے پیے بغیر روزہ رکھنا انسانی اعضاء و قوتوں کو کمزور کر دینے کا بھی موجب ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی غذا کی قوت مل جاتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرمالیتے۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے نیکی کے جذبے سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو دیکھ کر وصال کرنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع فرمایا مگر جب وہ باز نہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبق سکھانے کے لیے مسلسل روزے رکھنا شروع کیے تو اتنے میں چاند نظر آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زجروتوبیخ کے طور پر فرمایا: کرو وصال۔ کہاں تک کرو گے۔ اگر چاند نظر نہ آتا تو میں صومِ وصال کو مزید طول دے دیتا تاکہ تمہیں سبق ملتا۔
➍ بخاری میں حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وصال نہ کرو۔ ہاں اگر تم میں سے کوئی وصال کرنا ہی چاہے تو سحر تک وصال کرے۔ [صحيح البخاري، الصوم، باب الوصال ألي السحر، حديث: 1967]
جس سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے کہ صبح تک وصال جائز ہے۔
➎ سحری کا کھانا شعائرِ اسلام میں سے ہے، اس لیے سحری کو کھانا چاہیے اور رات دن کا وصال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 537