بلوغ المرام
كتاب الصيام -- روزے کے مسائل
1. (أحاديث في الصيام)
(روزے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 538
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:«‏‏‏‏من لم يدع قول الزور،‏‏‏‏ والعمل به،‏‏‏‏ والجهل،‏‏‏‏ فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه» .‏‏‏‏ رواه البخاري وأبو داود واللفظ له.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا اور حماقت و بیوقوفی کو ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ (بخاری و ابوداؤد) اور الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصوم، باب من لم يدع قول الزور، حديث:1903، وأبوداود، الصيام، حديث:2362.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1689  
´غیبت اور فحش کلامی پر روزہ دار کے لیے وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا، جہالت کی باتیں کرنا، اور ان پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1689]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
روزے کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
  ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَيْكُمُ ٱلصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾  (البقرة: 183: 2)
 اے ایمان والو!تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے۔
جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیاگیا تھا تاکہ تم مقتی بن جاؤ 
(2)
تقویٰ کے حصول کے لئے صرف کھانے پینے سے پرہیز کافی نہیں بلکہ ہر قسم کےگناہوں سے بچنے کی شعوری کوشش مطلوب ہے۔
روزہ رکھ کر ہم اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے بھی اللہ کے حکم کےمطابق پرہیز کرتے ہیں۔
تو جو کام پہلے بھی ممنوع ہیں۔
ان سے بچنا زیادہ ضروری ہے تاکہ مومن ان سے پرہیز کا عادی ہوجائے۔

(3)
شریعت اسلامیہ میں روزے کے دوران میں بات چیت کرنا جائز ہے۔
بلکہ چپ کا روزہ شرعاً منع ہے دیکھئے: (صحیح البخاري، الایمان والنذور، باب النذر فیما لا یملك وفی معصیة، حدیث: 6704)

(4)
عبادات انسان کے روحانی اور جسمانی فائدے کے لئے مقرر کی گئی ہیں۔
یہ اللہ کی ر حمت ہے کہ وہ ان پراعمال پر آخرت میں بھی عظیم انعامات عطا فرماتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1689   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 538  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا اور حماقت و بیوقوفی کو ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانے پینے کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ (بخاری و ابوداؤد) اور الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 538]
لغوی تشریح 538:
لَم یَدَع نہ چھوڑا، ترک نہ کیا۔ یَدَع، وَدَع سے ماخوذ ہے۔
أَلزُّور زا پر ضمہ اور واؤ ساکن ہے، یعنی جھوٹ اور بے ہودہ بولنا۔
أَلجَھلَ حماقت و بیوقوفی اور سختی۔ ٘ فَلَیسَ لِلّٰہ حَاجَہٌ تواللہ کو اس کی طرف التفات و توجہ کی حاجت و ضرورت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ہاں اس کا یہ عمل قابلِ قبول نہیں۔

فوائد و مسائل 538:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں جھوٹ، غلط بیانی اور جہالت و نادانی کے کام ترک کر دینے چاہییں۔ جھوٹ بولنے اور غلط بیانی سے روزے کی روح متأثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتی، اس لیے روزے کی حالت میں روزے دار کا ان کاموں سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
➋ روزے دار کی جسمانی تربیت کیساتھ روحانی تربیت بھی ہوتی ہے۔ گویا روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت پر کنٹرول کرنا سیکھ جائے۔ جھوٹ، دغا، فریب اور نادانی کے کاموں سے اجتناب کرے۔ اگر یہ مقصود حاصل نہ ہوا تو پھر روزہ رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 538   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 707  
´روزہ دار کے غیبت کرنے کی شناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ( «صائم») جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 707]
اردو حاشہ:
1؎:
اس تنبیہ سے مقصود یہ ہے کہ روزہ دار روزے کی حالت میں اپنے آپ کو ہر قسم کی معصیت سے بچائے رکھے تاکہ وہ روزے کے ثواب کا مستحق ہو سکے،
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ رمضان میں کھانا پینا شروع کر دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 707   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2362  
´روزے میں غیبت کی برائی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اور برے عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2362]
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ کو بنی آدم کے کسی عمل کی کوئی حاجت نہیں۔
اس کی اپنی احتیاج کے تحت ہی اسے شرعی امور کا پابند کیا گیا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان اپنی تمام تر گفتگو اور تمام کاموں میں اپنے آپ کو تمام محرکات سے دور رکھے۔
غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی نہ کھائے، حرام چیزوں کو فروخت نہ کرے، جب پورا مہینہ آدمی ان چیزوں سے دور رہے تو امید ہے کہ اس کا نفس سال کے بقیہ مہینوں میں بھی ان چیزوں سے اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ رہے گا۔
لیکن انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بہت سارے روزہ دار، رمضان اور غیر رمضان میں کوئی فرق نہیں کرتے، وہی جھوٹ، بے ہودہ گفتگو، دھوکہ وغیرہ اپنی عادت کے مطابق جارہ رہتا ہے۔
ان کے اوپر رمضان المبارک کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
بلاشبہ حدیث میں مذکورہ اعمال روزے کو نہیں توڑتے مگر اس کے اجروثواب میں کمی ضرور آجاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب کثرت سے ان اعمال کی پروا نہ کی جائے تو روزے کا اجر ہی ضائع ہو جائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2362