بلوغ المرام
كتاب الصيام -- روزے کے مسائل
1. (أحاديث في الصيام)
(روزے کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 546
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم خرج عام الفتح إلى مكة في رمضان فصام حتى بلغ كراع الغميم فصام الناس ثم دعا بقدح من ماء فرفعه حتى نظر الناس إليه ثم شرب فقيل له بعد ذلك إن بعض الناس قد صام؟ فقال: «‏‏‏‏أولئك العصاة،‏‏‏‏ أولئك العصاة» ‏‏‏‏ وفي لفظ: فقيل له إن الناس قد شق عليهم الصيام وإنما ينظرون فيما فعلت فدعا بقدح من ماء بعد العصر فشرب. رواه مسلم.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ کی طرف رمضان میں نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کراع الغمیم (ایک جگہ کا نام) پہنچے۔ اس دن لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو اتنا اونچا کیا کہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اور ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں کو روزہ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اور اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ وہ آپ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پی لیا۔

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصيام، باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان، حديث:1114.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 546  
´(روزے کے متعلق احادیث)`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ کی طرف رمضان میں نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کراع الغمیم (ایک جگہ کا نام) پہنچے۔ اس دن لوگوں نے بھی روزہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوایا اور اس کو اتنا اونچا کیا کہ لوگوں نے دیکھ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بعض لوگوں نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لوگ نافرمان ہیں، یہی لوگ نافرمان ہیں۔ اور ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ بیشک لوگوں کو روزہ نے مشقت میں ڈال دیا ہے اور اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ وہ آپ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا اور پی لیا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 546]
لغوی تشریح 546:
خَرَجَ عَامَ الفَتحِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد آٹھویں سال 10 رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوے۔
کُرَاعَ الغَمِیمِ کُرَاعَ کے کاف پر ضمہ ہے اور را مخفف ہے اور أَلغَمِیمِ میں غین پر فتحہ اور میم کے نیچے کسرہ ہے۔ عسفان سے آگے ایک وادی کا نام ہے۔
دَعَا بِقَدحٍ پیالہ طلب کیا۔ ٘فَرَفَعَہُ۔۔۔ الخ اسے ہاتھ پر رکھ کر بلند کیا تاکہ لوگ دیکھ لیں اور روزہ افطار کرلینے کا انہیں علم ہو جائے۔
أُولٰئِکَ العُصَاۃُ عُصَاۃ، عَاصٍ کی جمع ہے، یعنی نافرمان۔ انہیں نافرمان اس لیے کہا گیا کہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیطرف سے رخصت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ علامہ یمانی نے سبل السلام میں کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر کو روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں اختیار ہے اور ضرورت لاحق ہونے پر مسافر روزہ افطار بھی کر سکتا ہے، خواہ دن کا اکثر حصہ روزے کی حالت میں گزر چکا ہو۔ مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران میں مشقت کی صورت میں روزہ افطار کرنا افضل ہے۔

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 546   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 710  
´سفر میں روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 710]
اردو حاشہ:
1؎:
مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔

2؎:
کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر سختی کی اور روزہ افطار کرنے کے بارے میں انہیں جو رخصت دی گئی ہے اس رخصت کو قبول کرنے سے انہوں نے انکار کیا،
اور یہ اس شخص پر محمول کیا جائے گا جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر ہو رہا ہو،
رہا وہ شخص جسے سفر میں روزہ رکھنے سے ضرر نہ پہنچے تو وہ صوم رکھنے سے گنہگار نہ ہو گا،
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سفر کے دوران مشقت کی صورت میں روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 710