بلوغ المرام
كتاب الصيام -- روزے کے مسائل
2. باب صوم التطوع وما نهي عن صومه
نفلی روزے اور جن دنوں میں روزہ رکھنا منع ہے
حدیث نمبر: 557
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه» .‏‏‏‏ متفق عليه واللفظ للبخاري زاد أبو داود: «‏‏‏‏غير رمضان»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ روزہ رکھے جب کہ اس کا شوہر گھر میں ہو، مگر یہ کہ اس کا شوہر اس کی اجازت دیدے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور ابوداؤد نے، سوائے رمضان، کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، النكاح، باب صوم المرأة بإذن زوجها تطوعًا، حديث:5192، ومسلم، الزكاة، باب ما أنفق العبدمن مال مولاه، حديث:1026، وأبوداود، الصيام، حديث:2458.»
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 782  
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے نفل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بغیر اس کی اجازت کے نہ رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 782]
اردو حاشہ:
1؎: ((لَا تَصُوْمُ)) نفی کا صیغہ جو نہی کے معنی میں ہے،
مسلم کی روایت میں ((لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُوْمَ)) کے الفاظ وارد ہیں،
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کی موجودگی میں نفلی روزے عورت کے لیے بغیر شوہر کی اجازت کے جائز نہیں،
اور یہ ممانعت مطلقاً ہے اس میں یوم عرفہ اور عاشوراء کے روزے بھی داخل ہیں بعض لوگوں نے عرفہ اور عاشوراء کے روزے کو مستثنیٰ کیا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 782   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2458  
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے (نفل) روزے رکھنے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت روزہ نہ رکھے سوائے رمضان کے، اور بغیر اس کی اجازت کے اس کی موجودگی میں کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2458]
فوائد ومسائل:
روزے کی حالت میں زوجین کے مابین تعلقات زن و شو قائم نہیں ہو سکتے۔
علاوہ ازیں بھوک و پیاس کی وجہ سے طبیعت میں گرانی سی بھی آ جاتی ہے اور عین فطری بات ہے کہ شوہر بالعموم ایسی کیفیت گوارا نہیں کرتے اور اس کے نتائج نا مناسب ہو سکتےہیں۔
اس لیے شریعت نے ان کے تعلقات میں معمولی رخنہ آنے کی بھی اجازت نہیں دی اور عورت کو پابند کیا ہے کہ نفلی روزے کے لیے شوہر کی اجازت حاصل کرے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کو شوہر کی تسکین کے لیے انتہائی حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے، یہ علائق محض نفسیاتی نہیں بلکہ شرعی بھی ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2458