صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4178
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ حَفِظْتُ بَعْضَهُ , وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ , وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يَزِيدُ , أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ , قَالَا: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ , فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ , وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ , وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بِغَدِيرِ الْأَشْطَاطِ أَتَاهُ عَيْنُهُ , قَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَكَ جُمُوعًا , وَقَدْ جَمَعُوا لَكَ الْأَحَابِيشَ وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ , وَصَادُّوكَ عَنْ الْبَيْتِ وَمَانِعُوكَ , فَقَالَ:" أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيَّ , أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنْ الْبَيْتِ؟ فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَإِلَّا تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ" , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ لَا تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلَا حَرْبَ أَحَدٍ , فَتَوَجَّهْ لَهُ , فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ , قَالَ:" امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ جب زہری نے یہ حدیث بیان کی (جو آگے مذکور ہوئی ہے) تو اس میں سے کچھ میں نے یاد رکھی اور معمر نے اس کو اچھی طرح یاد دلایا۔ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے بیان کیا ‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کچھ بڑھاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایا اور اس پر نشان لگایا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آ گئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک ہاری ہوئی قوم جان کر چھوڑ دیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4178  
4178. حضرت مسور بن مخرمہ اور حضرت مروان بن حکم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حدیبیہ کے سال ایک ہزار سے کچھ زائد صحابہ کرام ؓ کے ساتھ روانہ ہوئے۔ آپ جب ذوالحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانوروں کو ہار پہنائے اور ان کا شعار کیا۔ وہاں سے آپ نے عمرے کا احرام باندھا، پھر قبیلہ خزاعہ سے ایک جاسوس بھیجا اور خود نبی ﷺ سفر کرتے رہے۔ جب غدیر اشطاط پہنچے تو آپ کے جاسوس نے اطلاع دی کہ قریش نے آپ (کے مقابلے) کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہوا ہے۔ انہوں نے مختلف قبائل کو اکٹھا کر رکھا ہے اور وہ آپ سے لڑنا چاہتے ہیں، نیز آپ کو بیت اللہ سے روکنے کا پروگرام رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! مجھے مشورہ دو، کیا تم مناسب سمجھتے ہو کہ میں ان کے اہل و عیال پر حملہ کر دوں جو ہمیں بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ لوگ (اپنے اہل و عیال کو بچانے کی خاطر) ہمارے پاس (لڑائی کرنے) آ گئے تو اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4178]
حدیث حاشیہ:

احابیش سے مراد مختلف قبائل ہیں جنھوں نے قریش سے عہد وپیمان کررکھا تھا، ان میں اکثر قبائل بنوقارہ کے تھے۔
یہ لوگ حدیبیہ کے سال قریش کےہاں مکہ چلے گے تھے کہ رسول اللہﷺ کو بیت اللہ کے طواف سے روکا جائے، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا کہ سیدھا بیت اللہ جانا چاہیے یا احابیش کے بال بچوں پر حملہ کردینا چاہیے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے مشورہ دیا کہ آپ منازل احابیش پر حملہ نہ کریں بلکہ سیدھا بیت اللہ کا رخ کریں، ممکن ہے کہ جاسوس کی خبر غلط ہو۔
اگر ہم ان منازل تک چلے گئے تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔
آپ یوں خیال کریں کہ ہم نے کوئی جاسوس نہیں بھیجا ہے۔
بہرحال آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کا مشورہ قبول کرکے سیدھے بیت اللہ جانے کا حکم دیا۔

غدیر اشطاط، حدیبیہ کی طرف سے ایک مقام کا نام ہے اورعسفان کی طرف واقع ہے۔
وہاں پانی جمع رہتا ہے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے لوٹ مار کا ارادہ تر ک کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4178