بلوغ المرام
كتاب النكاح -- نکاح کے مسائل کا بیان
4. باب الصداق
حق مہر کا بیان
حدیث نمبر: 891
وعن عائشة رضي الله عنها: أن عمرة بنت الجون تعوذت من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حين أدخلت عليه،‏‏‏‏ (تعني لما تزوجها) فقال: «‏‏‏‏لقد عذت بمعاذ» ‏‏‏‏ فطلقها وأمر أسامة فمتعها بثلاثة أثواب. أخرجه ابن ماجه وفي إسناده راو متروك. وأصل القصة في الصحيح من حديث أبي أسيد الساعدي.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرہ بنت الجون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) داخل کیا گیا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک پناہ دینے والے کی پناہ طلب کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دیدی اور اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو فائدے کے طور پر تین کپڑے دے دو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ اس کی سند میں متروک راوی ہے۔ اس کا اصل قصہ صحیح بخاری میں ابواسید ساعدی سے مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «[موضوع] أخرجه ابن ماجه، الطلاق، باب متعة الطلاق، حديث:2037.* عبيد بن القاسم متروك، كذبه ابن معين، واتهمه أبوداود بالوضع (تقريب)، وحديث البخاري، الطلاق، حديث:5254 هو الصحيح، وحديث أبي أسيد الساعدي: أخرجه البخاري، الطلاق، حديث:5255 وانظر، حديث:924.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2050  
´جن الفاظ سے طلاق واقع ہوتی ہے ان کا بیان۔`
اوزاعی کہتے ہیں میں نے زہری سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بیوی نے آپ سے اللہ کی پناہ مانگی تو انہوں نے کہا: مجھے عروہ نے خبر دی کی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جَون کی بیٹی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت میں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب گئے تو بولی: میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بڑی ہستی کی پناہ مانگی ہے تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2050]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طلاق کے لیے بعض الفاظ صریح ہیں، مثلاً:
تجھے طلاق ہے۔
میں نے تجھے طلاق دی۔
ان سے بالاتفاق طلا ق ہوجاتی ہے۔

(2)
بعض الفاظ ایسے ہیں کہ ان سے طلاق بھی مراد ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔
انہیںکنایہ کےالفاظ کہتے ہیں۔
ان میں کہنے والے کی نیت کو دخل ہے۔
اگر اس نے طلاق کی نیت سے کہےہیں تو طلاق ہوگی ورنہ نہیں، مثلاً:
اس حدیث میںاپنے گھروالوں کے پاس چلی جا سے مراد طلاق ہے لیکن حضرت کعب بن مالک کی توبہ کے مشہور واقعے میں جب رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا کہ بیوی سے مقاربت نہ کریں تو انہوں نے بیوی سے یہی الفاظ کہے:
(الحقی باهلك)
اپنے گھروالوں کے ہاں چلی جا۔
اور وہ طلاق شمار نہیں ہوئی کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ تم اس گھر میں رہائش نہ رکھو جہاں میں موجود ہوں، ایسا نہ ہو کہ نبیﷺ کےحکم کی خلاف ورزی ہوجائے اور میں مقاربت کربیٹھوں۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك حدیث: 4481)

(3)
  اس واقعہ سے متعلق چند فوائد حدیث: 2037 کے تحت بیان ہوچکے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2050   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 891  
´حق مہر کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عمرہ بنت الجون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کی جب اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (خلوت میں) داخل کیا گیا یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے ٹھیک پناہ دینے والے کی پناہ طلب کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے طلاق دیدی اور اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو فائدے کے طور پر تین کپڑے دے دو۔ اسے ابن ماجہ نے روایت کی ہے۔ اس کی سند میں متروک راوی ہے۔ اس کا اصل قصہ صحیح بخاری میں ابواسید ساعدی سے مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 891»
تخریج:
« «موضوع» أخرجه ابن ماجه، الطلاق، باب متعة الطلاق، حديث:2037.* عبيد بن القاسم متروك، كذبه ابن معين، واتهمه أبوداود بالوضع (تقريب)، وحديث البخاري، الطلاق، حديث:5254 هو الصحيح، وحديث أبي أسيد الساعدي: أخرجه البخاري، الطلاق، حديث:5255 وانظر، حديث:924.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے صحیح بخاری کی روایت صحیح ہے‘ علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ اس میں حضرت اسامہ کا ذکر منکر ہے اور مزید لکھا ہے کہ صحیح الفاظ صحیح بخاری کے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے اس کے والدین کے ہاں بھیجنے کے لیے تیار کریں اور اسے پہننے کے لیے دو سوتی کپڑے دے دیں‘ لہٰذا صحیح بخاری کی روایت ہی صحیح ہے جیسا کہ دیگر محققین نے بھی کہا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۵ /۴۶۰.۴۶۲‘ والإرواء:۷ /۱۴۶‘ حدیث:۲۰۶۴) 2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق ہو جائے اور اس کا مہر بھی معین نہ ہوا ہو تو اسے کچھ نہ کچھ مال ضرور دینا چاہیے۔
علماء کی اکثریت اسے واجب کہتی ہے۔
آیت کا ظاہر بھی اسی کا مؤید ہے۔
وضاحت: «عَمْرَہ بنت جون» عمرہ میں عین پر فتحہ اور میم ساکن ہے۔
جون میں جیم پر فتحہ اور واؤ ساکن ہے۔
اس جونیہ کے (نام کے) بارے میں اختلاف ہے‘ چنانچہ اس روایت میں ہے کہ یہ عَمْرہ ہے۔
اورابن جوزی نے اپنی کتاب (التلقیح‘ ص:۱۳) میں ذکر کیا ہے کہ یہ اسماء بنت نعمان بن ابی الجون بن حارث کندیہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ ابو اسید کی حدیث کے بعض طرق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ امیمہ بنت نعمان بن شراحیل ہے۔
امام زہری کہتے ہیں کہ یہ فاطمہ بنت ضحاک ہے۔
(التلقیح‘ ص:۱۲) صاف ظاہر ہے کہ ان سب سے ایک ہی عورت مراد ہے اور اختلاف تو راویوں کے تصرفات کی وجہ سے ہے۔
اور درست بات یہ ہے کہ اس کا نام امیمہ ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت ابواُسَیْد رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ اُسَیْد اسد کی تصغیرہے۔
یہ مالک بن ربیعہ بن بَدَن ہیں۔
(بدن کے با اور دال دونوں پر فتحہ ہے۔
)
یہ نام کی بجائے اپنی کنیت سے زیادہ مشہور تھے۔
غزوۂ بدر اور دیگر غزوات میں شریک ہوئے۔
۳۰ ہجری میں وفات پائی۔
اور ایک قول کے مطابق اس کے بعد وفات پائی۔
بلکہ مدائنی کے قول کے مطابق ۶۰ ہجری میں وفات پائی اور بدری صحابہ میں سے وفات پانے والے سب سے آخری صحابی یہ ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 891