بلوغ المرام
كتاب الجنايات -- جنایات ( جرائم ) کے مسائل
1. (أحاديث في الجنايات)
(جنایات کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1006
وعن عبد الرحمن بن البيلماني أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قتل مسلما بمعاهد وقال: «‏‏‏‏أنا أولى من وفى بذمته» ‏‏‏‏ أخرجه عبد الرزاق مرسلا ووصله الدارقطني بذكر ابن عمر فيه وإسناد الموصول واه.
سیدنا عبدالرحمٰن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہدی (کافر) کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کیا اور (ساتھ ہی) فرمایا میں ایفائے عہد کرنے والوں میں سب سے بہتر وفا کرنے والا ہوں۔ عبدالرزاق نے اسی طرح مرسل روایت کیا ہے اور دارقطنی نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موصل بیان کیا ہے لیکن اس کی سند کمزور ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه عبدالرزاق في المصنف:10 /101، حديث:18514، وابن أبي شيبة، والطحاوي،135، وفي سنده إبراهيم بن أبي يحييٰ وهو متروك، وله شاهد مرسل عند الطحاوي فيه محمد بن أبي حميد ضعيف جدًا، قال البخاري: منكر الحديث، وشاهد مرسل عند أبي داود في المراسيل، وفيه عبدالله بن يعقوب وعبدالله بن عبدالعزيز بن صالح الحضرمي مجهولان، فائدة: ولم يثبت عن عمر أنه قتل رجلاً مسلمًا في قتل الكافر، رواه إبراهيم النخعي وهو ولد بعد شهادة عمررضي الله عنه، وأما أثرعبيدالله بن عمر بن الخطاب، فإنه قتل مسلمين:الهرمزان وابنة أبي لؤلؤة ولم يريدوا أن يقتلوه في قتل الكافر، وأثر علي فيه قيس بن الربيع وحسين بن ميمون ضعيفان.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1006  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن بیلمانی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہدی (کافر) کے بدلے ایک مسلمان کو قتل کیا اور (ساتھ ہی) فرمایا میں ایفائے عہد کرنے والوں میں سب سے بہتر وفا کرنے والا ہوں۔ عبدالرزاق نے اسی طرح مرسل روایت کیا ہے اور دارقطنی نے اس کو ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موصل بیان کیا ہے لیکن اس کی سند کمزور ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1006»
تخریج:
«أخرجه عبدالرزاق في المصنف:10 /101، حديث:18514، وابن أبي شيبة، والطحاوي،135، وفي سنده إبراهيم بن أبي يحييٰ وهو متروك، وله شاهد مرسل عند الطحاوي فيه محمد بن أبي حميد ضعيف جدًا، قال البخاري: منكر الحديث، وشاهد مرسل عند أبي داود في المراسيل، وفيه عبدالله بن يعقوب وعبدالله بن عبدالعزيز بن صالح الحضرمي مجهولان، فائدة: ولم يثبت عن عمر أنه قتل رجلاً مسلمًا في قتل الكافر، رواه إبراهيم النخعي وهو ولد بعد شهادة عمررضي الله عنه، وأما أثرعبيدالله بن عمر بن الخطاب، فإنه قتل مسلمين:الهرمزان وابنة أبي لؤلؤة ولم يريدوا أن يقتلوه في قتل الكافر، وأثر علي فيه قيس بن الربيع وحسين بن ميمون ضعيفان.»
تشریح:
اس حدیث کے شدت ضعف اور حدیث «لاَ یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ» کے معارض ہونے کی وجہسے جمہور نے اسے ناقابل استدلال قرار دیا ہے‘ البتہ احناف اسی طرف گئے ہیں۔
احناف اکثر اوقات صحیح حدیث پر ضعیف کو ترجیح دے دیتے ہیں‘ لہٰذا اس مسئلے میں بھی جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس پر کوئی تعجب نہیں۔
راویٔ حدیث:
«‏‏‏‏حضرت عبدالرحمن بن بیلمانی رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ عبدالرحمن بن ابو زید‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔
مدنی تھے۔
حران میں جا کر فروکش ہوئے۔
تابعی ہیں اور طبقۂ سادسہ سے ہیں۔
امام ابوحاتم کا قول ہے کہ یہ کمزور راوی ہے اور ابن حبان نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔
اور امام داراقطنی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے دلیل نہیں لی جاسکتی۔
جبکہ ازدی نے اسے منکر الحدیث کہا ہے۔
بیلمان کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے بیلمانی کہلائے۔
بیلمان کے با پر فتحہ اور یا ساکن اور لام پر فتحہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1006