بلوغ المرام
كتاب الجنايات -- جنایات ( جرائم ) کے مسائل
3. باب دعوى الدم والقسامة
دعویٰ خون اور قسامت
حدیث نمبر: 1021
وعن رجل من الأنصار: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أقر القسامة على ما كانت عليه في الجاهلية وقضى بها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بين ناس من الأنصار في قتيل ادعوه على اليهود. رواه مسلم.
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی قسامت کو برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے حق میں دیا۔ جس کا دعویٰ یہودیوں پر کیا گیا تھا۔ (مسلم)

تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، القسامة، حديث:1670.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1021  
´دعویٰ خون اور قسامت`
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی قسامت کو برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے حق میں دیا۔ جس کا دعویٰ یہودیوں پر کیا گیا تھا۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1021»
تخریج:
«أخرجه مسلم، القسامة، حديث:1670.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانۂجاہلیت میں طریقۂ قسامت معتبر تھا‘ پھر اسی قسامت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا۔
2. قسامت کا آغاز اس طرح ہوا کہ ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا‘ جب معاملہ سنگین صورت حال اختیار کر گیا تو قاتل نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں نے قتل نہیں کیا۔
اس موقع پر ابوطالب نے کھڑے ہو کر تین باتیں ان کے سامنے رکھیں کہ تینوں میں سے کوئی ایک منتخب کر لو: یا تو ہمیں دیت ادا کر دو‘ یا پچاس آدمیوں کی قسمیں دے دو‘ یا ہم تجھے قتل کریں گے۔
ہمارا قاتل تو ہی ہے۔
اس روز سے قتل کے بارے میں قسامت کا رواج جاری ہوا اور آج تک جوں کا توں چلا آرہا ہے۔
3.اگر مدعا علیہم قسمیں دے دیں تو بالاتفاق ان پر کوئی دیت نہیں۔
4.اس معاملے میں شریعت نے کافر کی قسم کو بھی تسلیم کیا ہے۔
5. یہ معلوم رہے کہ صرف مدعی کے کہنے پر قسموں کا آغاز نہیں ہوگا تاوقتیکہ دیگر شبہات اس کی تائید نہ کریں۔
6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دور جاہلیت کی اچھی چیزوں کو اسلام نے برقرار رکھا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1021