بلوغ المرام
كتاب الجنايات -- جنایات ( جرائم ) کے مسائل
4. باب قتال أهل البغي
باغی لوگوں سے جنگ و قتال کرنا
حدیث نمبر: 1025
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏هل تدري يا ابن أم عبد كيف حكم الله فيمن بغى من هذه الأمة؟» ‏‏‏‏ قال: الله ورسوله أعلم قال: «‏‏‏‏لا يجهز على جريحها ولا يقتل أسيرها ولا يطلب هاربها ولا يقسم فيئها» .‏‏‏‏ رواه البزار والحاكم وصححه فوهم لأن في إسناده كوثر بن حكيم وهو متروك وصح عن علي من طرق نحوه موقوفا أخرجه ابن أبي شيبة والحاكم.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام عبد کے بیٹے! کیا تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے باغی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے زخمیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے قیدیوں کو قتل کیا جائے گا اور نہ بھاگنے والے کا پیچھا و تعاقب کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے گا۔ اس روایت کو بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مگر یہ حاکم کا وہم ہے اس لئے کہ اس کی سند میں کوثر بن حکیم متروک راوی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً اس کی مانند کئی طرق سے مروی ہے جو صحیح ہے۔ اسے ابن ابی شیبہ اور حاکم نے نکالا ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البزار (كشف الأستار): 2 /359، والحاكم: 2 /155، وقال الذهبي: "كوثر بن حكيم متروك" وأثر علي أخرجه ابن أبي شيبة: 15 /280، 281، حديث:37805، وغيره، والبيهقي:8 /181، 182، والحاكم وهو صحيح.»
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1025  
´باغی لوگوں سے جنگ و قتال کرنا`
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ام عبد کے بیٹے! کیا تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے باغی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے زخمیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے قیدیوں کو قتل کیا جائے گا اور نہ بھاگنے والے کا پیچھا و تعاقب کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے مال غنیمت کو تقسیم کیا جائے گا۔ اس روایت کو بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ مگر یہ حاکم کا وہم ہے اس لئے کہ اس کی سند میں کوثر بن حکیم متروک راوی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً اس کی مانند کئی طرق سے مروی ہے جو صحیح ہے۔ اسے ابن ابی شیبہ اور حاکم نے نکالا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1025»
تخریج:
«أخرجه البزار (كشف الأستار): 2 /359، والحاكم: 2 /155، وقال الذهبي: "كوثر بن حكيم متروك" وأثر علي أخرجه ابن أبي شيبة: 15 /280، 281، حديث:37805، وغيره، والبيهقي:8 /181، 182، والحاكم وهو صحيح.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«کوثر بن حکیم» عطاء اور مکحول سے روایت کرتا ہے۔
کوفی تھا اور حلب میں رہتا تھا۔
ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔
اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات باطل ہیں۔
(میزان الاعتدال)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1025