صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
37. بَابُ قِصَّةِ عُكْلٍ وَعُرَيْنَةَ:
باب: قبائل عکل اور عرینہ کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4193
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الْحَوْضِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَالْحَجَّاجُ الصَّوَّافُ , قَالَ:حَدَّثَنِي أَبُو رَجَاءٍ مَوْلَى أَبِي قِلَابَةَ، وَكَانَ مَعَهُ بِالشَّأْمِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ اسْتَشَارَ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ:" مَا تَقُولُونَ فِي هَذِهِ الْقَسَامَةِ؟"، فَقَالُوا: حَقٌّ قَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَضَتْ بِهَا الْخُلَفَاءُ قَبْلَكَ، قَالَ: وَأَبُو قِلَابَةَ خَلْفَ سَرِيرِهِ، فَقَالَ عَنْبَسَةُ بْنُ سَعِيدٍ: فَأَيْنَ حَدِيثُ أَنَسٍ فِي الْعُرَنِيِّينَ؟، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: إِيَّايَ، حَدَّثَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُرَيْنَةَ، وَقَالَ أَبُو قِلَابَةَ: عَنْ أَنَسٍ، مِنْ عُكْلٍ ذَكَرَ الْقِصَّةَ.
مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعمر حفص بن عمر الحوضی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب اور حجاج صواف نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوقلابہ کے مولیٰ ابورجاء نے بیان کیا ‘ وہ ابوقلابہ کے ساتھ شام میں تھے کہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک دن لوگوں سے مشورہ کیا کہ اس قسامہ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حق ہے۔ اس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر خلفاء راشدین آپ سے پہلے کرتے رہے ہیں۔ ابورجاء نے بیان کیا کہ اس وقت ابوقلابہ ‘ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے تخت کے پیچھے تھے۔ اتنے میں عنبسہ بن سعید نے کہا کہ پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ نے خود مجھ سے یہ بیان کیا۔ عبدالعزیز بن صہیب نے (اپنی روایت میں) انس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صرف عرینہ کا نام لیا اور ابوقلابہ نے اپنی روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے صرف عکل کا نام لیا پھر یہی قصہ بیان کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4193  
4193. حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک دن لوگوں سے مشورہ لیا اور فرمایا: تم اس قسامہ کے متعلق کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا: یہ حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا اور آپ سے پہلے خلفائے راشدین نے بھی اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ ابو رجاء بیان کرتے ہیں: اس وقت ابوقلابہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تخت کے پیچھے (کھڑے) تھے۔ اتنے میں رنبسہ بن سعید نے کہا: پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے متعلق حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ حضرت انس ؓ نے خود مجھ سے بیان کی تھی۔ عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس ؓ کے حوالے سے صرف قبیلہ عکل کا ذکر کیا ہے، پھر مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4193]
حدیث حاشیہ:
جب قتل کے گواہ نہ ہوں اور لاش کسی محلہ یا گاؤں میں ملے اوران لوگوں پر قتل کا شبہ ہو تو ان میں سے پچاس آدمی چن کر ان سے حلف لیا جاتا ہے اس کو قسامہ کہتے ہیں۔
عنبسہ کا خیال یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کے لیے قسامہ کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان سے قصاص لیا۔
عنبسہ کا یہ اعتراض صحیح نہ تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا اور قسامت وہاں ہوتی ہے جہاں ثبوت نہ ہو صرف اشتباہ ہو۔
حدیث میں قبیلہ عرینہ کا ذکر ہے باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
روایت میں حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کا نام نامی ذکر ہوا ہے جو خلیفہ عادل کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ کی امامت واجتہاد معرفت احادیث وآثار پر امت کا اتفاق ہے بلکہ آپ کو اپنے وقت کا مجدد اسلام تسلیم کیا گیا ہے۔
آپ کے اسلامی کارناموں میں بڑا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ آپ کو تدوین حدیث اور کتابت حدیث کی منظم کوشش کا احساس ہوا۔
چنانچہ آپ نے اپنے نائب والی مدینہ ابوبکر حزمی کو فرمان بھیجا کہ رسول اکرم ﷺ کی احادیث صحیحہ کو مدون کرو کیونکہ مجھے علم اور اہل علم کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
لہذا احادیث کی مستند کتابیں جمع کر کے مجھ کو بھیجو۔
ابوبکر حزمی نے آپ کے فرمان کی تعمیل میں احادیث کے کئی ذخیرے جمع کرائے مگر وہ ان کو حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کی حیات میں ان تک نہ پہنچا سکے۔
ہاں خلیفہ عادل نے حضرت ابن شہاب زہری کو بھی اس خدمت پر مامور فرمایا تھا اور ان کو جمع حدیث کا حکم دیا تھا۔
چنانچہ انہوں نے دفتر کے دفتر جمع کئے اور ان کو خلیفہ وقت تک پہنچایا۔
آپ نے ان کی متعدد نقلیں اپنی قلم رو میں مختلف مقامات پر بھجوائیں۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو خلافت راشدہ کا خلیفہَ خامس قرار دیا گیا ہے۔
رحمه اللہ رحمة واسعة۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4193   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4193  
4193. حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک دن لوگوں سے مشورہ لیا اور فرمایا: تم اس قسامہ کے متعلق کیا کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا: یہ حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے مطابق فیصلہ فرمایا اور آپ سے پہلے خلفائے راشدین نے بھی اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ ابو رجاء بیان کرتے ہیں: اس وقت ابوقلابہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے تخت کے پیچھے (کھڑے) تھے۔ اتنے میں رنبسہ بن سعید نے کہا: پھر قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے متعلق حضرت انس ؓ سے مروی حدیث کہاں گئی؟ اس پر ابوقلابہ نے کہا کہ حضرت انس ؓ نے خود مجھ سے بیان کی تھی۔ عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس ؓ کے حوالے سے صرف قبیلہ عکل کا ذکر کیا ہے، پھر مذکورہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4193]
حدیث حاشیہ:

جب کسی محلے یا گاؤں میں لاش ملے اور ان لوگوں پر قتل کا شبہ ہو لیکن گواہ نہ ملیں تو ان میں سے پچاس آدمیوں کا انتخاب کرکے ان سے قسمیں لی جاتی ہیں کہ ہمیں اس قتل کا علم نہیں ہے۔
قسمیں لینے کی اس کاروائی کو قسامہ کہا جاتا ہے۔

عنبسہ بن سعید کو اس قسامہ سے اتفاق نہیں تھا، انھوں نے اس کے مقابلے میں عرنیین کا واقعہ پیش کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے قسامہ کا حکم نہیں دیا بلکہ ان سے قصاص لیا ہے لیکن ان کا یہ اعتراض صحیح نہیں تھا کیونکہ عرینہ والوں پر تو خون ثابت ہو چکا تھا جبکہ قسامہ وہاں ہوتا ہے جہاں قتل کے متعلق ثبوت اور گواہ نہ ہوں صرف شبہ ہو۔
مذکورہ واقعہ میں قبیلہ عرینہ اور عکل کے لوگوں نے اتفاق کر کے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کیا اور اسے مختلف عذاب دیے، پھر دودھ والے جانوروں کو بھگا کر لے گئے، اس لیے انھیں بطور قصاص قتل کیا گیا۔

چونکہ اس حدیث میں عرنیین کا حوالہ تھا اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے لیکن آئندہ کتاب الدیات میں اس حدیث کو تفصیل سے حدیث نمبر6899۔
کے تحت بیان کریں گے۔
ہم وہاں قسامہ کے متعلق تفصیل سے لکھیں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4193