صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4207
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: الْتَقَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكُونَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَاقْتَتَلُوا، فَمَالَ كُلُّ قَوْمٍ إِلَى عَسْكَرِهِمْ، وَفِي الْمُسْلِمِينَ رَجُلٌ لَا يَدَعُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَاذَّةً وَلَا فَاذَّةً إِلَّا اتَّبَعَهَا فَضَرَبَهَا بِسَيْفِهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَجْزَأَ أَحَدٌ مَا أَجْزَأَ فُلَانٌ، فَقَالَ:" إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، فَقَالُوا: أَيُّنَا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنْ كَانَ هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: لَأَتَّبِعَنَّهُ، فَإِذَا أَسْرَعَ وَأَبْطَأَ كُنْتُ مَعَهُ، حَتَّى جُرِحَ فَاسْتَعْجَلَ الْمَوْتَ، فَوَضَعَ نِصَابَ سَيْفِهِ بِالْأَرْضِ وَذُبَابَهُ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ تَحَامَلَ عَلَيْهِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَجَاءَ الرَّجُلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟"، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:" إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ وَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 83  
´تقدیر کا غالب آنا`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن سهل بن سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجنَّة وَإنَّهُ من أهل النَّار وَإِنَّمَا الْعمَّال بالخواتيم» . . .»
. . . سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تحقیق بندہ جہنمیوں کا کام کرتا ہے اور دراصل وہ جنتی لوگوں میں سے ہوتا ہے اور (بعض لوگ) جنتیوں کے سے کام کرتے ہیں اور وہ درحقیقت دوزخی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، پس اعمال کا اعتبار خاتمہ پر ہے۔ مسلم بخاری نے روایت کیا ہے۔ (یعنی مرنے کے وقت اگر جنتیوں کے کام پر مرا ہے تو جنتی لوگوں میں سے ہے اور اگر مرنے کے وقت دوزخیوں کے کام پر مرا ہے تو دوزخی لوگوں میں سے ہے۔) واللہ اعلم . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 83]

تخریج:
[صحيح بخاري 6607]،
[صحيح مسلم 306]

فقہ الحدیث:
➊ جس کا خاتمہ بالخیر ہو گا وہی کامیاب اور اللہ کے فضل و کرم سے جنت کا حقدار ہے۔
➋ کفر و شرک سے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔
➌ اعمال کا اعتبار خاتمے پر ہے، والے الفاظ صحیح مسلم میں نہیں ہیں، بلکہ صرف صحیح بخاری میں ہیں۔
➍ تقدیر پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر وقت نیک اعمال اور صحیح عقیدے والا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ معلوم نہیں ہے کہ کب موت کا فرشتہ آ جائے اور دنیا سے روانگی ہو جائے۔
➎ تقدیر کا سہارا لے کر گناہ کا ارتکاب کرنا، عذر گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہے۔
➏ اللہ سے ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگنی چاہئیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ وہ اپنے فضل و کرم سے دعا مانگنے والے کی تقدیر کو بدل سکتا ہے۔
➐ اپنی نیکیوں پر کبھی فخر نہیں کرنا چاہئیے۔
➑ مومن کی پوری زندگی خوف اور امید کے درمیان ہوتی ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 83   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4207  
4207. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4207]
حدیث حاشیہ:
اسی لیے تو فرمایا کہ اصل اعتبار خاتمہ کا ہے۔
جنتی لوگوں کا خاتمہ جنت کے اعمال پر اور دوزخیوں کا خاتمہ دوزخ کے اعمال پر ہوتا ہے۔
خود کشی کرنا شریعت میں سخت جرم قرار دیا گیا ہے۔
یہ حرام موت مرنا ہے۔
روایت میں جنگ خیبر کا ذکر ہے۔
یہی روایت اور باب میں مطابقت ہے۔
یہ نوٹ آج شعبان سنہ1392 ھ کو مسجد اہلحدیث ہندو پور میں لکھ رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس مسجد کو قائم و دائم رکھے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4207   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4207  
4207. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور مشرکین کا ایک غزوے میں سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں جم کر لڑے۔ پھر ہر فریق اپنے اپنے لشکر کی طرف چلا گیا۔ اس دوران میں مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی تھا جو مشرکین کے کسی الگ ہونے والے اور تنہا رہنے والے شخص کو نہیں چھوڑتا تھا۔ وہ اس کے پیچھے لگ جاتا اور اپنی تلوار سے اسے قتل کر دیتا تھا۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! کسی نے وہ کام نہیں کیا جو فلاں نے کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ تو جہنمی ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا: اگر وہ دوزخی ہے تو پھر ہم میں سے کون جنتی ہو گا؟ لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: میں ضرور اس کا پیچھا کروں گا۔ وہ تیز دوڑے یا آہستہ چلے میں ضرور اس کے ساتھ رہوں گا، حتی کہ وہ جب زخمی ہوا اور جلدی مرنا چاہا تو اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اوراس کی تیز نوک دار دھار اپنے سینے کے درمیان رکھی، پھر اس پر اپنا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4207]
حدیث حاشیہ:

اس شخص کا نام قزمان ظفری تھا۔
انصار کے ایک چھوٹے قبیلے بنوظفر کی طرف منسوب ہے۔
اس کی کنیت ابوغیداق تھی۔
(شَاذَّه)
اس بکری کو کہتے ہیں جو ریوڑ سے الگ ہوکر چرے اور (فَاذَّه)
وہ بکری جو ابتدا ہی سے دوسری بکریوں سے الگ تھلگ رہے۔
(فتح الباري: 589/7)

اس سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص مشرکین کے کسی آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا، جسے دیکھتا اسے اپنی تلوار کی نوک پر رکھ لیتا تھا۔
وہ شخص مناق تھا اور اس نے اپنے نفاق کو چھپارکھاتھا، اس لیے یہ حدیث ا پنے ظاہری مفہوم میں واضح ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تلوار سے کام تمام کیا تھا جبکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تیر سے خود کشی کی تھی، ان روایات میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے کیونکہ پہلے اس نے تیر سے خود کو زخمی کیا، لیکن ا س سے مقصد حاصل نہ ہوتوتلوار سے اپنا کام تمام کردیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4207