بلوغ المرام
كتاب القضاء -- قاضی ( جج ) وغیرہ بننے کے مسائل
1. (أحاديث في القضاء)
(قضاء کے متعلق احادیث)
حدیث نمبر: 1195
وعن جابر رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «‏‏‏‏كيف تقدس أمة لا يؤخذ من شديدهم لضعيفهم» ‏‏‏‏ رواه ابن حبان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وله شاهد من حديث بريدة عند البزار. وآخر من حديث أبي سعيد عن ابن ماجه.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ امت کیسے پاک ہو سکتی ہے جس میں طاقتور سے کمزور کا حق نہ دلوایا جا سکے۔ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور بزار کے ہاں بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی شاہد ہے اور اس کا ایک اور شاہد ابن ماجہ میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1554، 2584، وابن ماجه، الفتن، حديث:4010 بطوله، وحديث بريدة: أخرجه البزار، كشف الأستار:1 /235، 236، حديث:1596 وهو حديث حسن، وحديث أبي سعيد الخدري: أخرجه ابن ماجه، الفتن، حديث:4011، وهو حديث حسن.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4010  
´امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہاجرین (یعنی مہاجرین حبشہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھ سے وہ عجیب باتیں کیوں نہیں بیان کرتے جو تم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں؟، ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہمارے سامنے سر پر پانی کا مٹکا لیے ہوئے ایک حبشی نوجوان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نوجوان نے اپنا ایک ہاتھ اس بڑھیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4010]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مکہ کے مظلوم مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔
پہلے گروپ نے رجب 5 نبوت میں ہجرت کی اس کے بعد اگلے سال زیادہ افراد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔
ہجرت مدینہ کے بعد یہ حضرات مختلف اوقات میں گروہوں کی شکل میں مدینہ پہنچ گئے۔

(2)
سمندر کے مہاجرین سے مراد حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے لوگ ہیں کیونکہ یہ حضرات بحر قلزم (بحر احمر)
پار کرکے حبشہ پہنچے تھے۔

(3)
سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی قیامت اور جنت جہنم کا ذکر موجود تھا۔
نبی ﷺ کے دور میں اگرچہ ان کتا بوں میں تحریف ہوچکی تھی۔
تاہم ان میں بہت سی صحیح باتیں موجود تھیں۔
موجودہ بائبل میں یہ تحریف بہت زیادہ ہےاور صحیح چیزیں شاذ ونادر ہیں۔

(4)
غیر مسلم صحیح بات کرے تو اس کی بھی تصدیق کرنی چاہیے۔

(5)
جس قوم میں کمزوروں پر ظلم کیاجائے۔
وہ اللہ کی طرف سے سزا کی مستحق ہوجاتی ہے۔

(6)
اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں عدل وانصاف قائم رہے اور مظلوم کی مدد کرتے ہوئے ظالم کو پوری سزا دی جائے۔

(7)
موجودہ غیر مسلم معاشرے میں قانون اس قسم کے ہیں جن سے ظالم کو تحفظ ملتا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں بھی انھی ظالمانہ قوانین کو رائج کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے ظلم پھیلتا ہے اور مظلوم تباہ ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4010   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1195  
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ امت کیسے پاک ہو سکتی ہے جس میں طاقتور سے کمزور کا حق نہ دلوایا جا سکے۔ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور بزار کے ہاں بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اس کی شاہد ہے اور اس کا ایک اور شاہد ابن ماجہ میں سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1195»
تخریج:
«أخرجه ابن حبان (الموارد)، حديث:1554، 2584، وابن ماجه، الفتن، حديث:4010 بطوله، وحديث بريدة: أخرجه البزار، كشف الأستار:1 /235، 236، حديث:1596 وهو حديث حسن، وحديث أبي سعيد الخدري: أخرجه ابن ماجه، الفتن، حديث:4011، وهو حديث حسن.»
تشریح:
سبل السلام میں ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ امت جو طاقت ور سے کمزور کو انصاف نہیں دلواتی اور اس کا جو حق بنتا ہے وہ لے کر نہیں دیتی تو وہ گناہوں سے کیسے پاک ہو گی‘ لہٰذا کمزور کی مدد کرنا واجب ہے یہاں تک کہ وہ طاقت ور سے اپنا حق لے لے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1195