صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4210
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ:" لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ , يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"، قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟"، فَقِيلَ: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ:" فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ"، فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ فَبَرَأَ، حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟، فَقَالَ:" انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحازم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ غزوہ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول بھی اسے عزیز رکھتے ہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ رات سب کی اس فکر میں گزر گئی کہ دیکھیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عَلم کسے عطا فرماتے ہیں۔ صبح ہوئی تو سب خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور اس امید کے ساتھ کہ عَلم انہیں کو ملے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ تو آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ جب وہ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں میں لگایا اور ان کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے ان کی آنکھیں اتنی اچھی ہو گئیں جیسے پہلے کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ علی رضی اللہ عنہ نے عَلم سنبھال کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں گا جب تک وہ ہمارے ہی جیسے نہ ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی چلتے رہو ‘ ان کے میدان میں اتر کر پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ اللہ کا ان پر کیا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4210  
4210. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالٰی فتح عطا کرے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نیز اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگ ساری رات اس امر میں غور کرتے رہے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ ﷺ جھنڈا اسے دیں گے لیکن آپ نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کی آںکھوں میں شدید درد ہے۔ آپ نے ان کی طرف کسی آدمی کو بھیجا، چنانچہ انہیں لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لب مبارک ڈالا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ تندرست ہو گئے، گویا ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہیں ہوا۔ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4210]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جنگ اسلام کا مقصود اول نہیں ہے۔
اسلام کا مقصود حقیقی اشاعت اسلام ہے جو اگر تبلیغ اسلام سے ہوجائے تو لڑنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف فرمایا ہے کہ اللہ پاک فسادیوں کو دوست نہیں رکھتا وہ تو عدل وانصاف اور صلح وامن وامان کا چاہنے والا ہے۔
حضرت علی ؓ کو فاتح خیبر اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آخر میں جھنڈا سنبھالا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرایا۔
لال اونٹ عرب کے ممالک میں بہت قیمتی ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4210   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4210  
4210. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالٰی فتح عطا کرے گا۔ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، نیز اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگ ساری رات اس امر میں غور کرتے رہے کہ ان میں سے کس کو جھنڈا دیا جائے گا؟ جب صبح ہوئی تو لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ ﷺ جھنڈا اسے دیں گے لیکن آپ نے فرمایا: علی بن ابی طالب کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ان کی آںکھوں میں شدید درد ہے۔ آپ نے ان کی طرف کسی آدمی کو بھیجا، چنانچہ انہیں لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں میں لب مبارک ڈالا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ تندرست ہو گئے، گویا ان کی آنکھوں میں کبھی درد ہی نہیں ہوا۔ پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4210]
حدیث حاشیہ:

اسلام کامقصود حقیقی اشاعت دین ہے، جنگ وقتال مقصود حقیقی نہیں۔
اللہ تعالیٰ عدل وانصاف اور صلح وامن کو پسند کرتا ہے۔

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کافر کی تالیف قلبی کرنا تاکہ وہ مسلمان ہوجائے اسے قتل کرنے سے بہتر ہے۔
(فتح الباري: 597/7)

رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے یہود کو پہلے دعوتِ اسلام دی لیکن انھوں نے اسے مستردکردیا اوراپنے بادشاہ مرحب کی زیر کمان مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔
میدان جنگ میں اُترکر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی اور یہ کہتا ہوا نمودار ہوا:
خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں، ہتھیار پوش، بہادر اور تجربہ کار، جب جنگ شعلہ زن ہو۔
اس کے مقابلے میں حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے چچا حضرت عامر ؓ نمودار ہوئے اور فرمایا:
خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں، ہتھیار پوش، شہ زور اور جنگجو۔
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا لیکن حضرت عامر ؓ میدان میں کام آگئے۔
اس کے بعد حضرت علی ؓ مقابلے کے لیے تشریف لائے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے میدان میں اترے:
’ ’میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر(شیر)
رکھا ہے۔
جنگل کے شیر کی طرح خوفناک ہوں۔
میں انھیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا، یعنی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گا۔
اس کے بعد انھوں نے مرحب کے سرپرایسی تلوار ماری کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔
اس کے بعد حضرت علی ؓ کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوا۔
اسی قلعہ سے حضرت صفیہ ؓ کوقید کیا گیا تھا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4678(1807)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4210